سوالات



سوال: یا پھر نجات کا رستہ کیا ہے؟

جواب:
کیا آپ بھوکے هیں؟ جسمانی طور پر نهیں، کیا آپ اپنی زندگی میں کسی اور چیز کی زیاده بھوک رکھتے هیں؟کیا کوئی چیز آپ کے اندر هیں جو کبھی مطمن نظر نهیں آتی؟ اگرہا ں !تو یسوع رسته هے یسوع نے کها، "زندگی کی روٹی میں هوں۔ جو میرے پاس آئے وه هرگز بھوکا نه هوگا، اور جو مجھ پر ایمان لائے وه کبھی پیاسا نه هوگا"﴿یوحنا 6باب35آیت﴾۔

کیا آپ پریشان هیں؟ کیا آپ نے کبھی اپنی زندگی کا رسته اور مقصد معلوم کرنا چاها هے؟ کیا کبھی آپ کو ایسا لگا که کسی نے تمام روشنیاں بند کردیں ہو اور آپ کو بٹن نهیں مل رها؟ اگرہاں ! تو یسوع علان کرتا ہے کہ میں رستہ ہے ، "دنیا کا نور میں هوں ۔ جو کوئی میری پیروی کرتا ہے کبھی بھی اندھیرےمیں نه چلے گا بلکه زندگی کا نور پائے گا "﴿یوحنا 8باب12آیت﴾۔

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا هے که جیسے آپ کسی قید میں هیں ؟ کیا آپ بهت سے دروازے آزما چکے ہیں ؟ اور آپ نے پایا که ان کے پیچھے کچھ بھی نهیں اور وه بے معنی هیں؟ کیا آپ ایک بھرپور زندگی میں داخل هونے کے لیے رسته تلاش کررهے هیں؟ اگر ایسا هے تو یسوع رسته هے یسوع اعلان کرتا هے، "دروازه میں هوں؛ جوکوئی مجھ سے داخل هو تو نجات پائیگا۔ اور اندر باهر آیا جایا کریگا اور چارا پائیگا"﴿یوحنا10باب9آیت﴾۔

کیا دوسرے لوگ آپ کو همیشه نیچا دکھاتے هیں؟ کیا آپ کے تعلقات بهت هلکے اور بے معنی سے هیں؟ کیا آپ کو ایسا لگتا هے که هر کوئی آپ سے فائده اُٹھانے کی کوشش کرتا هے؟ پس اگر ایسا هے ، تو یسوع رسته هے۔ یسوع نے فرمایا، "اچھا چرواها میں هوں۔ اچھا چرواها بھیڑوں کے لیے اپنی جان دیتا هے ....، اچھا چرواها میں هوں ۔میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میر ی بھیڑیں مجھے جانتی ہیں۔﴿یوحنا10باب11اور14آیت﴾۔

کیا آپ حیران هیں که اس زندگی کے بعد کیا هونیوالا هے ؟ کیا آپ زندگی میں ایسی چیزوں کے لیے کوشش کرتے رهیں هیں جو صرف سڑتی هیں اور ان کو زنگ لگ جاتا هے؟ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا که زندگی کا کوئی مطلب هے ؟ کیا آپ مرنے کے بعد زنده رهنا چاهتے هیں؟ پس اگرایسا ہے ۔تو یسوع رسته هے ۔یسوع اعلان کرتا هے ، "یسوع نے کها قیامت اور زندگی میں هوں ۔ جو مجھ پر ایمان لاتا هے گو وه مر جائے تو بھی زنده رهے گا۔ اور جو کوئی زنده هے اورمجھ پر ایمان لاتا هے وه ابد تک کبھی نه مریگا"﴿یوحنا11باب25تا26آیت﴾۔

رسته کیا هے؟ سچائی کیا هے ؟زندگی کیا هے ؟ یسوع نے جواب دیا، "راه اور حق اور زندگی میں هوں ۔ کوئی میرے وسیله کے بغیر باپ کے پاس نهیں آتا"﴿یوحنا14باب6آیت﴾۔

جو بھوک آپ محسوس کرتے هیں وه روحانی بھوک هے، اور یہ بھوک صرف یسوع کے ذریعے هی مٹ سکتی هے۔ صرف یسوع هی هے جو تاریکی کو دور کر سکتا هے۔ یسوع تسلی بخش زندگی کا دروازه هے۔ یسوع دوست اور چرواها هے جسے آپ تلاش کررهے هیں۔ یسوع زندگی هے اس دنیا میں اور آنے والی دنیا میں ۔ یسوع نجات کا رسته هے !

آپکی بھو ک کی وجه،اور آپ کے تاریکی میں گم ہونے کی وجه، اسلئیے آپ زندگی کے اصل معنی تلاش نهیں کر پا رهے، کیااِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ خدا سے جُدا ہیں۔ کلامِ مقدس همیں بتاتی هے که هم سب نے گناه کیا اور اس وجه سے خدا سے دور هوگئے ﴿واعظ7باب20آیت؛ رومیوں3باب23آیت﴾۔ آپ اپنی زندگی میں جو خالی پن محسوس کرتے هیں وه خدا هے جو آپ کی زندگی میں موجود نهیں۔ هم خدا کے ساتھ تعلق رکھنے کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔ گناه کی وجه سے ، همارا تعلق ختم هو گیا۔ اس سے زیاده بُرا یه هوا که گناه کی وجه سے هم همیشه که لیے خدا سے الگ هو گئے، اور اس میں اور آنے والی زندگی میں ﴿رومیوں 6باب23آیت؛ یوحنا3باب36آیت﴾۔

یه مشکل کیسے حل هو سکتی ہے ؟ یسوع رسته هے ! یسوع نے همارے گناه اپنے اوپر لے لیے ﴿2۔کرنتھیوں5باب21آیت﴾۔ یسوع هماری جگه مُوا ﴿رومیوں5باب8آیت﴾، وه سزا سهی جس کے هم حقدار هیں۔ تین دن بعد ، یسوع مردوں میں سے جی اُٹھا، اپنی فتح کو گناه اور موت پر ثابت کیا ﴿رومیوں6باب4تا5آیت﴾۔ اس نے یه کیوں کیا؟ یسوع نے خود هی اس کا جواب دیا، "اس سے زیاده محبت کوئی شخص نهیں کرتا که اپنی جان اپنے دوستوں کے لیے دے دے"﴿یوحنا15باب13آیت﴾۔ یسوع مُوا تاکه هم زنده ره سکیں۔ اگر هم اپنا ایمان یسوع پر رکھتے هیں اور ایمان رکھتے هیں که اس نے موت کے ذریعے همارے گناهوں کی قیمت ادا کی همارے تمام گناه معاف هو گئے اور دُھل گئے هیں۔ تب هماری روحانی بھوک کو تسلی ملے گی۔ روشنی دوباره واپس آ جائیگی۔تب هم بھرپور زندگی تک رسائی حاصل کریں گے۔ هم اپنے سچے دوست اور اچھے چرواهے کو جانیں گے۔ هم جانیں گے کے هم مرنے کے بعد زندگی رکھتے هیں مردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یسوع کے ساتھ آسمان پر همیشه کی زندگی کے لیے

کیونکه خدا نے دنیا کے ساتھ ایسی محبت رکھی که اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا که جو کوئی اس پر ایمان لائے هلاک نه هو بلکه همیشه کی زندگی پائے"﴿یوحنا3باب 16آیت﴾۔

اگر ایسا ہے، تو برائے مہربانی دبائیں "آج میں نے مسیح کو قبول کرلیا"نیچے دئیے گئے بٹن کو





سوال: کیا بائبل میں اغلاط ، نقائص یا ختلافات پائے جاتے ہیں ؟

جواب:
اگر ہم بائبل کو پہلے سے سوچی سمجھی اغلاط کی تلاش کے بغیر مقابلہ کرنے کی خاطر پڑھیں تو ہم اِسے قابلِ فہم ، با اصول اور متعلقہ اعتبار سے ایک آسانی سے سمجھ آنے والی کتاب پائیں گے ۔ جی ہاں ، یہاں پر مُشکل پیرے ہیں ۔ جی ہاں اِس میں ایسی آیات ہیں جو آپس میں اختلافات رکھتی ہیں ۔ ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ بائبل تقریبا 40 مختلف مصنفین نے تقریبا 1500 سال سے زائد عرصہ میں لکھی تھی ۔ ہر مصنف نے ایک مختلف پیش نظر سے مختلف سُننے والوں کے لیے ایک مختلف مقصد کے لیے ایک مختلف انداز میں لکھا ۔ ہمیں چند چھوٹے چھوٹے اختلافات کو مان لینا چاہیے ۔ تاہم مختلف ہونا نقص نہیں ہے ۔ اگر ایسا کوئی بھی طریقہ نہ ہو کہ آیات اور پیروں کو ہم آہنگ کیا جا سکے تو یہ محض ایک غلطی ہو گی ۔ حتی کہ ابھی تک کوئی جواب دستیاب نہ ہو تو اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ جواب کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ بہت ساروں نے بائبل میں تاریخ اور جغرافیہ سے متعلقہ ایک فرضی غلطی کو تلاش کیا محض یہ دیکھنے کے لیے کہ بائبل دُرست ہے ، ایک دفعہ پھر اِسکی گواہی آثارِ قدیمہ سے دریافت ہو چُکی ہے ۔

ہمیں اکثر اِس طرح کے فقروں پر مبنی سوالات موصول ہوتے ہیں کہ ، " وضاحت کریں کہ کس طرح یہ آیات اختلاف نہیں رکھتی ہیں "، دیکھیے ، یہاں پر بائبل میں غلطی ہے " یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے پیش کی جانے والی بعض باتوں کا جواب دینا مُشکل ہے ۔ تاہم ہماری یہ کوشش ہو تی ہے کہ بائبل کے ہر فرضی اختلاف اور غلطی کا مُفید نتیجہ خیز اور عقلی طور پر قرین قیاس جوابات دیے جائیں ۔ ایسی کُتب اور ویب سائٹ دستیاب ہیں جن میں " بائبل میں تمام اغلا ط " کی فہرست دی گئی ہے ۔ بہت سارے لوگ واضح طور پر اپنے لیے اِس طرح کی باتیں ایسی جگہوں سے لیتے ہیں ، وہ اپنے طور پر اِن فرضی اغلاط کو تلاش نہیں کر تے ہیں ۔ ایسی کُتب اور ویب سائٹ بھی دستیاب ہیں جو اِن فرضی اغلاط میں سے ہر ایک کو جھوٹا ثابت کرتیں ہیں ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ جو بائبل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ حقیقی طور پر جواب میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ۔ بہت سارے " بائبل پر شدید تنقید کرنے والے " اِن جوابات سے آگاہ ہوتے ہیں ، لیکن وہ بالکل اُس طرح کی پُرانی سوچ کو جاری رکھے ہوئے ہیں کہ بار بار تنقید کرتے رہیں ۔

پس تب ہمیں کیا کرنا ہو گا جب کوئی بائبل کی ایک مدلل( دلیل کے ساتھ ) غلطی کے ساتھ ہمارے پاس آتا ہے ؟ 1) دعا کرتے ہوئے کلام کا مطالعہ کریں یہاں اِس کا ایک واضح حال موجود ہے 2)۔ بائبل کی عُمدہ تفاسیر " بائبل کا دفاع" جیسی کُتب اور بائبل کے بارے میں تحقیقی ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہوئے کچھ تحقیق کریں 3) اپنے پادریوں اور کلیسیا کے راہنماوں سے پوچھیں یہ دیکھنے کے لیے کہ اگرچہ اِس کا کوئی حل تلاش کر سکیں )4 اگر بیان کیے گئے 1 ۔ 2 ۔ 3 مرحلوں کے بعد بھی ابھی تک کوئی واضح جواب نہیں ملا تو ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ اُس کا کلام سچائی ہے اور یہ کہ اِس کا حل موجود ہے جو کہ ابھی تک واضح طور پر آشکارہ نہیں ہوا ہے ۔ ( تیمتھیس 2 ( 17 ۔ 16 : 3 ، 15: 2 )





سوال: ہمیں کیوں بائبل کو پڑھنا چاہیے ؟

جواب:
ہمیں بائبل کو پڑھنا اور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے لیے خدا کا کلام ہے ۔ بائبل ہو بہو" خدا کا الہام" ہے ۔ ( 2 تیمتھیس 3 : 16 ) ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہمارے لیے خدا کا اعلیٰ درجے کا کلام ہے یہاں پر بہت سارے سوالات ہیں جو کہ فلسفی پوچھتے ہیں جن کا جواب خدا کلام میں دیتا ہے ۔ زندگی کا کیا مقصد ہے ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ کیا موت کے بعد زندگی ہے ؟ میں کس طرح جنت حاصل کر سکتا ہوں ؟ دُنیا کیوں گناہوں سے بھری ہوئی ہے ؟ میں اچھائی کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہوں ؟ اِن " بڑے " سوالات میں اضافہ کرتے ہوئے بائبل اِس طرح کے معاملات میں بہت زیادہ عملی نصیحت دیتی ہے جیسا کہ میں ایک جوڑے میں ( شادی شُدہ) میں کیا دیکھتا ہوں ؟ میں کس طرح ایک کامیاب شادی کر سکتا ہوں ؟ میں کس طرح ایک اچھا دوست بن سکتا ہوں ؟ میں ایک اچھا والد ( والدہ) بن سکتا یا سکتی ہوں ؟ کامیابی کیا ہے اور میں کس طرح حاصل کر سکتا ہوں ؟ میں بدل سکتا ہوں ، زندگی میں حقیقی معاملات کیا ہیں ؟ میں کس طرح زندگی گُزار سکتا ہوں تاکہ مُجھے پچھلے کیے پر پچھتانا نہ پڑے ۔ میں زندگی کے نا موافق حالات اور بُرے واقعیات کو کس طرح کامیابی سے نمنٹ سکتا ہوں ؟

ہمیں بائبل کو پڑھنا اور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ مکمل طور پر اعتماد اور غلطی کے بغیر ہے۔ بائبل " مقدس" کہلائی جائے ، کُتب میں بِکتا ہے جو کہ محض اخلاقی تعلیمات نہیں دیتی ہے اور کہتی ہے " مُجھ پر ایمان رکھو " بلکہ ہمیں اِس کی بیان کی ہوئی سینکڑوں پیشن گوئیوں کی جانچ کرتے ہوئے اِس کے تاریخی بیانات جو کہ اِس میں درج ہیں اِن کی جانچ کرتے ہوئے اور اُس کے متعلقہ ساینسی حقائق کی جانچ کر تے ہوئے اِس کی قابلیت کی آزمائش کرنا ہو گی ۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ بائبل میں اغلاط ہیں اُن کے کان سچائی سُننے سے قاصر ہیں ۔ یسو ع سے ایک دفعہ پوچھا گیا جو کہ کہنا نہایے آسان ہے ،" تمہارے گناہ معاف ہوئے" یا " اُتھ اپنی چارپائی اُٹھا اور چل پھر " پھر اُس نے ثابت کیا کہ وہ معذور کو شفا دیتے ہوئے ( جو اُس کے اِردگر دتھے اپنی آنکھوں سے جانچ کر سکتے تھے ) ۔ گناہ معاف کرنے کا اختیار رکھتا تھا ( کچھ ایسا جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے ) بالکل اِسی طرح ہمیں یقین دلاتا ہے کہ خدا کا کلام سچا ہے جب یہ روحانی معاملات پر بحث کرتا ہے جن کو ہم اُن معاملا ت میں اِن کی اپنی سچائی کو دیکھتے ہوئے اپنی حسیات سے نہیں جان سکتے ہیں جن کو ہم جانچ سکتے ہیں جیسا کہ تاریخی سچائی ، سائنسی سچائی ، اور پیشن گوئی کی سچائی ۔

ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنا اور پڑھنا چاہیے کیونکہ خدا تبدیل نہیں ہوتا ہے اور کیونکہ بنی نوع انسان کی فطرت تبدیل نہیں ہوتی ۔ یہ ایسے ہی ہمارے متعلق ہے جیسا کہ یہ تب تھی جب یہ لکھی گئی تھی ۔ جبکہ ٹیکنالوجی تبدیل ہوتی ہے بنی نوع انسان کی فطرت اور خواہشات تبدیل نہیں ہوتیں ۔ جیسے جیسے ہم بائبل کی تاریخ کے صفات کو پڑھتے ہیں کہ خواہ ہم ایکدوسرے کے ساتھ روابط یا معاشروں کی بات کرتے ہیں دُنیا میں کوئی چیز نئی نہیں ہے ( واعظ 1 باب 9 آیت ) اور جب بنی نوع انسا ن اجتماعی طو ر پر اُن تمام غلط جگہوں میں محبت اور اطیمنان کی تلاش جاری رکھتے ہیں خدا ہمارا اچھا اور مہربان خالق ہے ، ہمیں بتاتا ہے کیا چیز ہمیں ابدی خوشی دے گی ، اُس کا الہامی کلام بائبل نہایت اہم ہے کہ یسوع نے اِس کے بارے فرمایا " آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے " دوسرے الفاظ میں اگر ہم مکمل طور پر زندگی گُزارنا چاہتے ہیں جیسا کہ خدا کی مرضی ہے تو ہمیں اِسے سُننا چاہیے اور خدا کے لکھے ہوئے کلام کو توجہ سے سُننا چاہیے ۔

ہمیں بائبل کو پڑھنا اور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہاں پر بہت ساری غلط تعلیمات ہیں ، بائبل ہمیں ماپنے والی ایک چھڑی دیتی ہے جس سے ہم غلطی میں سے سچائی کو ممتاز کر سکتے ہیں ۔ وہ ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کس طرح ہے ۔ خدا کے بارے میں غلط تاثر رکھنا ایک بُت یا غلط دیوتا کی پوجا کرنا ہے ۔ ہم کسی ایسی چیز کی پرستش کر رہے جو کہ وہ ( خدا ) نہیں ہے۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی کس طرح حقیقی طور پر جنت حاصل کرتا ہے اور یہ نیک ہونے یا بپتسمہ لینے یا کوئی ایسا کام کرنے سے جو ہم کر تے ہیں حاصل نہیں ہوئی ۔ ( یوحنا 14 : 6 ، افسیوں 2 : 1 ۔ 10 ، یسعیاہ 53 : 6 ، رومیوں 3 : 10 ۔ 18، 10 : 9۔ 13 ، 6 :23 ، 5 : 8 )۔ اِس لائن کے ساتھ خدا کا کلام ہمیں دکھاتا ہے کہ خدا ہمیں کتنا پیارکرتا ہے ( رومیوں 5 : 6 ۔ 8 ، یوحنا 3 : 16 ) ۔ اور اِس میں سے یہ سیکھتے ہوئے کہ ہم اِس لیے محبت رکھتے ہیں کہ اُس نے ہم سے محبت رکھی ( 1 یوحنا 4 : 19 آیت )

بائبل ہمیں خدا کی خدمت کرنے کے لیے آراستہ کر تی ہے ( 2 تیمتھیس 3 : 17 ، افسیوں 6 : 17 ، عبرانیوں 4 : 12 ) ۔ یہ ہمیں یہ جاننے میں کہ ہم کس طرح اپنے گناہوں سے نجات پا سکتے ہیں اور اِس ( گناہ) کے آخری نتائج کے بارے میں ہماری مدد کر تی ہے ( 2 تمتھیس 3 : 15 )۔ خدا کے کلام پر غور و فکر کرنے سے اور اِس کی تعلیمات کی تابعداری کرنے سے زندگی میں کامیابی حاصل ہو گی ( یشوع 1 : 8 ، یعقوب 1 : 25 ) ۔ خدا کا کلام ہماری زندگیوں میں گناہ کو دیکھنے اور اِسے چھٹکارہ پانے میں ہماری مدد کرتا ہے ( زبور 119 : 9 ،11 ) ۔ یہ زندگی میں ہمیں راہنمائی دیتی ہے ہمیں اُستادوں سے زیادہ دانشمند بناتی ہے ( زبور 119: 8 ، 32 ، 99 ، امثال 1 : 6 ) ۔ بائبل ہمیں ہماری زندگیوں کے سال ضائع ہونے سے بچاتی ہے جو کہ اصل حقیقت ِ حال نہیں اور ابدی نہیں ہو نگے ۔ ( متی 7 : 24 ۔ 27 ) ۔

بائبل کا پڑھنا اور مطالعہ کرنا ہمیں گناہ آلود ہ بہکاوے میں ، پُر درد " جال " کی پُر کشش " تحریص " سے پرے دیکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم بظاہر ایسا کرنے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ سکیں ۔ تجربہ ایک عظیم اُستاد ہے لیکن یہ گناہ سے سیکھا جاتا ہے یہ ایک خوفناک قسسم کا اُستاد ہوتا ہے ۔ لیکن یہ گناہ سے سیکھا جاتا ہے ، اِس سے زےادہ بہتر دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا اہے ۔ یہاں پر بہت سارے بائبل کے کردار ہیں جنہوں نے اِس سے سیکھا اُن میں سے کچھ نے اپنی زندگی میں مختلف اوقات میں مثبت اور منفی دونوں طرح سے ایک مثالی کر دار کی طرح خدمت کر سکیں ۔ مثال کے طور پر داود جھولیت کہ اپنی شکست سے ہمیں سکھاتا ہے کہ خدا کسی بھی چیز سے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ کہتا ہے عظیم تر ہے ۔ ( 1 سیموئیل 17 ) جبکہ بیت سباہ کے ساتھ زنا کرنے کے بہکاوے میں آتے ہوئے آشکار کیا کہ ایک لمحے کا گناہ احساس کتنا لمبا اور خوفناک ہو سکتا ہے ( 2 سیموئیل 11) ۔

بائبل ایک کتاب ہے جو کہ صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہے یہ مطالعہ کرنے کی کتاب ہے تاکہ اِسے لاگو کیا جا سکے ۔ دوسری طرح یہ بغیر چبائے نگلنے والی خوراک کی طرح ہے اور پھر اِسے دوبارہ تھوک دیا جاتا ہے ۔ اِسے کوئی غذایت حاصل نہیں ہو تی ہے ۔ بائبل خدا کا کلام ہے جیسا کہ یہ اِسی طرح ضروری ہے جس طرح فطرت کے قوانین ضروری ہیں ۔ ہم اِسے رد کر سکتے ہیں لیکن ہم ایسا اپنے فیصلہ سے کرتے ہیں ، جیسا کہ ہم کششِ ِ ثقل کے قانون کو رد کرنے سے کریں گے ۔ ا،س پر مستحکم زور نہیں دیا جا سکتا ہے ایسا زیادہ کہ بائبل ہماری زندگیوں کے لیے کتنی اہم ہے ۔ بائبل کے مطالعہ کا سونے کی کان کنی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے ، اگر ہم تھوڑی سی کوشش کر تے ہیں اور محض " کنکریاں ایک ندی میں پھینکتے ہیں " تو ہم صرف تھوڑی سی سونے کی دھول حاصل کر تے ہیں ۔ لیکن مزید ہم اِس میں گڑھا کھودنے کی حقیقی کوشش کر تے ہیں تو ہم اپنی کوشش سے مزید انعام حاصل کریں گے ۔
 




سوال: كيا مسيحيوں نے بائبل كو تبديل كرركھا هے؟

جواب:
كُچھ مُسلمان مسيحيوں پر الزام لگاتے هيں كه اُنهوں نے بائبل كو اپني الهياتي تعليم كے موافق تبديل كرركھا هے ۔ جبكه يه الزام قُرآن اور بائبل كے درميان تفرقات كي وضاحت كرتا هے ، الزام كا كوئي مستند ثبوت نهيں هے ۔ دونوں قُرآن اور عُلما بائبل كے الهامي هونے كي تصديق كرتے هيں۔

بائبل كي قُرآن ميں تعريف كي گئي هے

بائبل مُحمد كے دور سے قبل يا دوران تبديل نهيں هوئي هوگي يا قُرآن اِس كي قطعاً تعريف نه كرتا٫٫اور هم نے يسوع ، ابن مريم كو پيدا كيا ، كه اُن كے نقش قدم پر چليں، تصديق كرتے هوئے جو اُن كے آگے ﴿ظاهر كيا گيا﴾ توريت ميں تھا، اور هم نے اُن پر انجيل نازل كي جس ميں رهنمائي اور روشني هے ، تصديق كرتے هوئے كه جو﴿ظاهر كيا گيا﴾ اِس سے پهلے توريت ميں تھا۔۔رهنمائي اور نصيحت، اُن كيلئے جو جھُٹلاتے هيں ﴿بُرائي كو﴾٬٬﴿سوره 5:46 ﴾۔

بائبل تبديل نه هوئي هے چونكه بائبل مُحمد كے دور سے قبل يا بعد ميں تبديل نه هوئي هے، تو واحد مُمكنه دور حضُور پاك كي موت كے بعد هوگا۔ليكن مدبرانه ثبوت ثابت كرتے هيں كه ساتويں تا اكيسويں صدي تك كوئي بھي الهياتي پهلو يوناني اور عبراني عبارتوں ميں فرق نهيں هے ۔ گرائمر اور هجوں كے فرق كے علاوه ، بائبل آج لازمي طور پر وهي هے جيسے مُحمد نے تعريف كي تھي ﴿سوره 3:3 ﴾۔


علاوه ازيں، جب مُحمد پيدا هوا تھا، دُنيا بھر ميں هزاروں بائبل مختلف زبانوں ميں موجود تھيں۔ اگر مسيحيوں نے بائبل كو تبديل كيا هوگا تو اُنهوں نے كيسے تمام مستند بائبلوں كو ايسي عياري دكھاتے هوئے ضائع كيا هوگا ؟

كوئي بائبل كو تبديل كرنے كا مرتكب هوتے هوئے محض كوئي تعليمات تبديل كرسكتا هوگا جو اُسے مجرم ٹھهراتي هوگي۔ اگر مسيحيوں نے واقعتاً بائبل ميں ترميم كي هے تو اُنهوں نے مُمكنه طور پر اُن حقائق كو مسخ كيا هے جو هم تھوما كے شك، پطرس كي مكاري، اور خُدا كے كلام كو تبديل كرنے كي سزا كے بارے ميں پڑھتے هيں۔

حق برحق هے، خُدا كا كلام وهي هے، ٫٫خدا كا هر ايك سخن پا ك هے وه انكي سپر هے جنكا تو كل اس پر هے تو اس كے كلام ميں كچھ نه بڑ ھانا مبا دا وه تجھ كو تنبيه كر ے اور تو جھو ٹا ٹھهر ے ٬٬ ﴿امثا ل 30:5-6 ﴾۔

بائبل سچائي هے

كيا آپ ابھي بھي يقين ركھتے هيں كه مسيحيوں نے بائبل كو تبديل كيا هے ؟ اگر ايسا هے، تو مهرباني سے بتائيں كه كونسي آيات 
الهياتي طور پر مسخ هوئي هيں ۔ اگر نهيں تو مهرباني كركے اُسے پڑھيں






سوال: كيا يسوع خدا هے؟ كيا يسوع نے كبھي دعويٰ كيا هے كه وه خدا هے؟

جواب:
یسوع کو کبھی بھی کلامِ مقدس میں ٹھیک ایسے الفاظ میں تحریر نهیں کیا گیاکه ، "میں خدا هوں"۔ اس کے باوجود اس کا یه مطلب نهیں، اس نے دعویٰ نهیں کیاکه وه خدا هے۔ "یسوع "کے الفاظ کی مثال لیتے هیں یوحنا10باب30آیت، "میں اور باپ ایک هیں"۔ پهلی نظر میں ، ایسا دکھائی نهیں دیتا که وه خدا هونے کا اعلان کرتے هیں۔ اس کے برعکس ، اس کے بیان پر یهودیوں کا ردِ عمل دیکھیں، "اچھے کام کے سبب سے نهیں بلکه کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے هیں اور اس لئے که تُو آدمی هوکر اپنے آپ کو خدا بناتا هے" ﴿یوحنا 10باب33آیت﴾۔ یهودی سمجھتے تھے که یسوع کا بیان خدا هونے کا دعویٰ هے۔ ذیل میں دی گی آیات میں یسوع یهودیوں کی تصیح نهیں کرتے ، "میں خدا هونے کا دعویٰ نهیں کرتا"۔ جو ظاهر کرتا هے که یسوع حقیقی طور پر اعلانیه کهه رهے تھے که خدا تھا، "میں اور باپ ایک هیں"﴿یوحنا10باب30آیت﴾۔ یوحنا8باب 58 آیت ایک اور مثال هے ،" یسوع نے کها، میں تم سے سچ سچ کهتا هوں که پیشتر اس سے که ابرہام پیدا هوا میں هوں"دوباره ، اس کے جواب میں، یهودیوں نے یسوع کو مارنے کے لئے پتھر اُٹھائے﴿یوحنا8باب59آیت﴾۔ کیونکه یهودی یسوع کو سنگسار کرنا چاهتے تھے اگر وه ایسا نهیں کهتا جو ان کے ایمان کے مطابق گستاخی هو، نام لینے سے، خدا هونے کا دعویٰ؟

یوحنا1باب1آیت کهتا هے که "کلام خدا تھا"۔ یوحنا1باب14آیت کهتا هے که "کلام مجسم هوا "۔ یه واضع طور پر ظاهر کرتا هے که یسوع هی انسانی شکل میں خدا هے۔ اعمال 20باب28آیت همیں بتاتی هے ، ..."پس اپنی اور اس سارے گله کی خبرداری کرو جس کا روح القدس نے تمهیں نگهبان ٹھرایا تاکه خدا کی کلیسیا کی گله بانی کروجسے اس نے خاص اپنے خون سے مول لی۔ کس نے کلیسیا کو اپنے خون سے خریدا؟ یسوع مسیح۔ اعمال 20باب28آیت اعلان کرتا هے که خدا نے کلیسیا کو خاص اپنے خون سے مول لئے۔ اسلئے ، یسوع خدا هے

توما رسول یسوع کے بارے میں اعلان کرتا هے ، "اے میرے خداوند اے میرے خدا"﴿یوحنا 20باب28آیت﴾۔ یسوع نے اس کی اصلاح نه کی ۔ ططس2باب13آیت هماری حوصله افزائی کرتی هے که هم انتظار کریں اپنے خداوند اور نجات دهنده کے آنے کاجو کہ یسوع مسیح ہے ﴿دیکھیں 2۔پطرس1باب1آیت﴾۔ عبرانیوں1باب8آیت میں باپ یسوع کا اعلان کرتا هے، "مگر بیٹے کی بابت وه کهتا هے که ، اے خدا تیرا تخت ابدالآباد رهے گا اور تیری بادشاهی کا عصا راستی کا عصا هے"۔ باپ خود بیٹے کو مخاطب کرتا ہے ۔اے خدا ۔کہہ کر ۔ جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع خدا ہے۔

مکاشفه کی کتاب میں ، ایک فرشته نے یوحنا رسول کو صرف خدا کی عبادت کرنے کی تعلیم دی ﴿مکاشفه 19باب10آیت﴾۔ کئی بار کلامِ مقدس میں یسوع کی عبادت کی گئی اور یسوع نے اُس عبادت کو قبول کیا تھا ﴿متی2باب11آیت؛ 14باب33آیت؛ 28باب9اور17آیت؛ لوقا24باب52آیت؛ یوحنا9باب38آیت﴾۔ اس نے کبھی ملامت نهیں کی اور نہ ہی اُن کو منع کیا جو اس کی عبادت کرتے هیں۔ اگر یسوع خدا نهیں تھا، وه لوگوں کو بتا سکتا تھا که میری عبادت نه کرو، جسے فرشتے نهیں مکاشفه میں کها۔ یهاں بهت سے حواله جات هیں جو یسوع کو ابدی خدا ثابت کرنے کی دلیل دیتے هیں۔

سب سے زیاده ضروری وجه یسوع کے خدا هونے کی یه هے که اگر وه خدا نهیں هے ، اس کی موت ناکافی هے ساری دنیا کے گناهوں کا کفاره ادا کرنے کے لئے ﴿1۔یوحنا2باب2آیت﴾۔ صرف خدا هی اس بے انتہا کفارے کو ادا کرسکتا هے۔ صرف خدا هی دنیا کے گناهوں کو اٹھا سکتا هے ﴿2۔کرنتھیوں5باب21آیت﴾، مرنا، اور جی اُٹھنا اس کی موت اور گناه پر فتح ثابت کر رها هے





Allama Dr. M. H. Durrani
پیش لفظ
اہلِ اسلام کے نزدیک ربنا المسیح نہ صرف ابنِ مریم ہیں بلکہ روح Adonai اورکلمتہ Adonai بھی ہیں ۔ اس لئے وہ بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں مسیح کلمتہ Adonai کی عزت واحترام ہرگز ہرگز مسیحیوں سے کم نہیں ۔ بایں ہمہ وہ ربنا المسیح کی ابنیت کے قطعی قائل نہیں بلکہ اُن کے نزدیک یہ کفرہے۔
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اُن کے نزدیک "Adonai لاشریک ہے" ۔ سورہ اخلاص میں مرقوم ہے کہ Adonai بے نیاز ہے نہ اِس سے کوئی پیدا ہوا اورنہ وہ کسی سے پیدا ہوا اورنہ کوئی اُس کے برابر کاہے" دوسری وجہ یہ ہے کہ خدا کی کوئی جورونہیں " (سورہ انعام ۱۰۱آیت، سورہ جن ۱۰۲آیت ) اب اگرربنا المسیح کوابن Adonai مان لیا جائے تویہ ماننا لازم آتاہے کہ خدا اپنی ذات میں دوسرے کوبھی شریک کرتاہے اورکہ وہ جورورکھتاہے۔ اوریہ دواُمورایسے ہیں جو مسلمانوں کے نزدیک نہ صرف کفُر ہے بلکہ محال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نزدیک بھی مسیح کلمتہ Adonai کی ابنیت کا یہ جسمانی تصور نہ صرف کفر ہے بلکہ محال ہے لیکن چونکہ قادرِمطلق خدا خود سیدنا مسیح کی شکل میں ظاہرہوکر انسانی سطح پر رہا۔ قادرمطلق خدا کا یہ فعل تجسم ہرگزہرگز شانِ خداوندی کے خلاف نہیں۔ اورنہ ہی اس میں مسیح کلمتہ Adonai کا کوئی جسمانی تصورپایا جاتاہے ۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اہلِ اسلام کو سمجھائیں کہ جب ہم ربنا المسیح کوابن Adonai کہتے ہیں تواس سے ہماری کیا مراد ہے۔
انجیل مقدس کے سطحی مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ قادرمطلق خدا، جوہماری ساری کائنات کا خالق ومالک ہے وہ اپنی ذات میں محبت ہے، اورمحبت کا تقاضا ہے کہ وہ ظاہر ہو، لہذا وہ اپنے ظہور کو ابن کہتاہے ۔ لہذا مسیح کلمتہ Adonai کی ابنیت جسمانی نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ آپ انسانی صورت میں ظاہرہوکر انسانی سطح پر رہے بایں ہمہ ذات وماہیت کے اعتبار سے جیسا کہ آپ نے فرمایاکہ" میں اورباپ ایک ہیں "(یوحنا ۱۰: ۲۰)۔
جلالی نام
مختصر یہ کہ انجیل مقدس میں خصوصیت سے مسیح کلمتہ Adonai کو" ابن Adonai" کہا گیاہے لیکن یہ خطاب بدیں وجہ ہمیشہ زیربحث رہا کہ" جب خدا کی جورو نہیں توپھر مسیح عیسیٰ کیسے خدا کے بیٹے ہوسکتے ہیں ؟
یہاں مناسب نہیں کہ ہم دلالت لفظی پر بحث کریں تاہم یہ کہنا غیر موزوں نہ ہوگاکہ لفظ بذاتِ خود کوئی حقیقت نہیں رکھتے، بلکہ وہ علامت ہیں جن کے ذریعے ہم کسی خاص تصور کا اظہار کرتے ہیں ، مثلاً ضرورت سے زیادہ زمانہ ساز کو" ابن الوقت" کہا جاتاہے۔ لیکن کیا ہم اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ فلاں زمانہ ساز کسی " وقت "نام شخص کی صلب سے پیدا ہواہے؟ اس لئے کہ لفظ ابن الوقت ایک خاص مطلب اورایک مخصوص تصور کے اظہار کے لئے وضع کیا گیاہے جواپنے معنوں میں نازیبا اورمعیوب نہیں۔ کیونکہ جہاں کوئی لفظ معنی میں غیر امکان ہو، وہاں وہ مجاز ہوتاہے۔ پس جس طرح ابن الوقت ایک خاص تصور اورمطلب ہے۔ اُسی طرح ابن Adonai کے ایک خاص معنی ہیں جس کا مادی تصور کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں ، بلکہ ہم اس جلالی نام سے سیدنا مسیح کی الوہیت تسلیم کرتے ہیں اورسچ تویہ ہے کہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے گہُر سے کہ صدف سے
کوزہ میں دریا
چنانچہ کلمتہ Adonai نے فرمایا ہے کہ" میں اورباپ ایک ہیں"۔ اور میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے" اورکہ" میں خدا سے نکلا ہوں"۔ اس تعلق کو جس کے اظہار کرنے میں قرآن قاصر تھی۔ اُسے انجیل مقدس نے ابن Adonai کے لطیف استعارہ میں سمجھ کرگویا دریا کو کوزہ میں بند کردیا۔ پس کلمتہ Adonai اُن معنوں میں خ دا کے بیٹے نہیں، جن معنوں میں اولادِ آدم ہے بلکہ ان معنوں میں ابن Adonai کہلائے کہ آپ کا ظہور خداتعالیٰ سے ہے۔ اس لئے آپ کونئے عہدنامہ میں " خدا کا جلال کا پرتو اوراُس کی ذات کا نقش " اورمثالی طورپر " اکلوتا بیٹا" کہا گیا ہے۔
خدا نور ہے
چنانچہ قرآن شریف میں خدا کے لئے آیاہے کہ " یس کمثلہ شی"اس پرسورہ ور میں خدا کو روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے۔" Adonai آسمان اورزمین کا نور ہے اوراُس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے کہ طاق ہو اورطاق میں ایک چراغ رکھاہے اورچراغ ایک شیشے کی قندیل ہے اورقندیل اس قدر شفاف ہے کہ گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے اورچراغ زیتون کے ایک مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتاہے کہ جونہ پورب کے رُخ واقع ہے اورنہ پچھم کے رُخ ۔ اس کا تیل اس قدر صاف ہے کہ اگراس کو آگ نہ چھوئے تاہم معلوم ہوتاہے کہ آپ سے آپ جل اٹھے گا غرض کہ نور پُرنور ہے اورAdonai نے اپنے نُور کی طرف جسکو چاہتاہے راہ دکھاتاہے اورAdonai لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتاہے"۔
یہ ہے قرآن کی پوری عبارت ۔مگرآج تک کسی مسلمان نے اس سے یہ نہیں سمجھاکہ خدا واقعی ایک روشنی ہے جوقندیل کی طرح کسی طاق میں رکھی ہے اورروغن زیتون سے جل رہی ہے ۔ مگرحیرت ہے کہ جب کبھی کسی مسیحی کی زبان سے " خدا کا بیٹا" سن لیتے ہیں تواُن کا ذہن ولدیت کی طرف دوڑجاتاہے ۔ لیکن قرآن شریف نے جب اپنے واسطے لفظ" اُم الکتاب" تجویز فرمایا(آل عمران ۵) اورمکہ کے شہر کو" اُم القریٰ" کہا تواس سے کوئی جنسی پہول مراد ہے؟ ہم کہتے ہیں قطعی نہیں۔ کیونکہ جب کسی انسانی محاورہ کا اطلاق خدا تعالیٰ پر کیا جاتاہے توتمثیلاًیااستعاراً ہوتاہے۔ہماری زبان میں ایسے الفاظ کا مفہوم جوہمارے لئے ہوتا۔ وہی مفہوم ذاتِ باری کے لئے سمجھنا سخت نادانی ہے۔ اس لئے کہ مادی اوردینوی خیال کا اطلاق آسمانی اور روحانی تعلقات پر عائد نہیں ہوسکتا۔ پس لازم ہے کہ مسیح ابن Adonai کے الہٰی تصور کے لئے " عالم بالا کی چیزوں کے خیال میں مگن رہو نہ کہ زمینی"۔
اُمہات المومنین
مثال کے طورپرہم مسلمانوں کو یاددلاتے ہیں کہ قرآن شریف میں آنحضرت کی ازدواج مطہرات کو اُمہات المومنین کہا گیا ہے (سورہ افراب غ) لیکن کیاہم اس وجہ سے اُنہیں مسلمانوں کی مائیں سمجھ لیں کہ وہ نبی کی بیویوں کے بطن سے پیدا ہوئے ہں ؟حالانکہ خود قرآن شریف نے اس خیال کی تردید بدین الفاظ کردی ہے ک مائیں تووہی ہیں جنہوں نے اُن کو جنا"(سورہ مجادلہ) پھر نبی کی بیویاں کیونکر مسلمانوں کی مائیں ٹھہرائی گئیں ؟ کیا یہ عقیدہ لاینخل نہیں؟ ہاں ضرور ہے بشرطیکہ اس کے نورانی پہلو کونظر انداز نہ کیا جائے۔ کیا حضرت منصور نے " انا اُلحق"یاحضرت یزید بطامی نے" من خدایم من خدا اورحضرت محی الدین العربی نے " لا الہ الاانا" کہہ کر کسی مادی تعلق کا مظاہرہ کیاتھا؟
سمیع وبصیر
اس ضمن میں ہمیں ایک اورمثال کا ذکر کرناہے اوروہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں خدا کو"سمیع وبصیر" کہا گیا ہے لیکن ہم خدا کو انسان کی طرح صاحبِ جسم اس وجہ سے تسلیم کرلیں کہ ذاتِ خداوندی سے "سننے" اور"دیکھنے" کی صفات منسوب کی گئی ہیں۔ نہیں قطعاً نہیں ۔ اس لئے کہ ہم خدا تعالیٰ کے قول وفعل سے ہوتی ہے اورجو الفاظ قرآن میں خدا سے منسوب کئے گئے ہیں ، وہ مثالی ہیں۔ گوخدا تعالیٰ صاحبِ اعضا نہیں تا ہم اس میں اتنی قدرت ہے کہ وہ بغیر آنکھ کے دیکھ سکتاہے اوربغیر کان کے سن سکتاہے۔ اسی طرح خدا بغیر جورو کے بیٹا رکھتاہے جو"نہ جسم کی خواہش سے نہ خون سے پیدا ہوا بلکہ وہ " خدا سے نکلا ہے"۔
الہٰی عطیہ
کلامِ مقدس میں بطورپیش گوئی اس معرفت کا یوں بیان آیاہے کہ ہم کوایک بیٹا بخشا گیا اورسلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی اوروہ اس نام سے کہلاتاہے " عجیب، مشیر ،خدائے قادر اورابدیت کا باپ اورسلامتی کا شہزادہ"(یسعیاہ ۹: ۶)۔ یہاں لفظ "بخشا" آیا ہے، جس سے ظاہر ہوتاہے کہ"بیٹا " مخلوق نہیں بلکہ الہٰی عطیہ ہے۔ البتہ اس کی بشریت مخلوق تھی۔
اورابن Adonai نے بشریت کے جامہ کو معجزانہ طورپر پہنا لہذا ابن Adonai کی بشریت ظرف کے طورپر ہے لیکن وہ اس کا مظروف ہے پس انسانیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوہیت کے لحاظ سے وہ " ابن Adonai " ہے۔ اسی وجہ سے آپ نے فرمایا" میں خدامیں سے نکلا اورآیاہوں" (یوحنا ۸: ۴۳) پیشتر اس سے کہ ابراہام پیدا ہوا" میں ہوں"(یوحنا ۸: ۵۵)۔
اس نکتہ کو مقدس رسول یوں پیش کرتاہے کہ" ابن Adonai "اگرچہ خدا کی صورت پر تھا۔ " لیکن انسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا اوریہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ گویاکہ شہنشاہ ہوکر بے نواؤں کا یارومددگاربنا۔ مالک ہوتے ہوئے خادم کی صورت اختیار کی تاکہ ہمیں مالا مال کرے۔ اگرچہ وہ ابن Adonai تھا مگرابن مریم بن گیا تاکہ ہمیں بھی خدا کے فرزند بننے کا استحقاق بخشے۔ پس کلمتہ Adonai انسان ہونے کی وجہ سے ابن Adonai نہیں بلکہ ابن Adonai ہونے کی وجہ سے انسان اورآسمان کی بادشاہی کا سلطان ہے۔
بیٹے سے مراد
لہذا کلامِ مقدس میں لفظ" باپ" اوربیٹے کا استعمال بطور شرع ہے۔ باپ سے مراد کسی کا شوہر نہیں اورنہ ہی بیٹے سے مراد جُورو کے بطن سے پیدا ہونے والا ہے۔ بلکہ یہ الفاظ درحقیقت خداتعالیٰ اورمسیح کلمتہ Adonai کا باہمی تعلق ظاہر کرتے ہیں۔اب اگر ان الفاظ کے معنی وہی لئے جائیں جس مقصد کے لئے یہ وضع کئے گئے ہیں تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا دائرہ الفاظ کی مقید بہ الفاظ ہے۔ جوقطعاً درست نہیں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کو سمیع وبصیر کہنے سے اس کے کان اورآنکھ اور"وجہ Adonai" سے اُس کے دانت ، زبان چہرہ اور" ید Adonai" کہنے سے ہتھیلی اور انگلیاں وغیرہ کا وجود لازم آئے گا۔ لیکن جیسے کہ اُس کے منہ ، ہاتھ، کان، آنکھ وغیرہ سے ہمارے جیسے اعضا مراد نہیں بلکہ اُن کا مفہوم وہی ہے جو اس کی الوہیت کی شان کے نمایاں ہے۔
یہاں یہ جتلادینا ضروری ہے کہ بلاشبہ خدا تعالیٰ کا نہ توکوئی شریک ہے اورنہ ہی کوئی مثل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بیانِ الہٰی کے ضمن میں کوئی مثال تک پیش نہیں کرسکتا۔ خدا کے لئے مثلِ معن ہے لیکن مثال جائز ہے۔ چنانچہ ہم سطور بالا میں قرآن شریف کے حوالے سے یہ بیان کرچکے ہیں کہ خدا کو "نور" کہا گیا ہے اور" نور کو" طاق چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے اوراسی طرح خدا کوحاکم، مالک اوربادشاہ کہا جاتاہے حالانکہ انہیں القاب سے انسان کو بھی ملقب کیا جاتاہے لیکن اگرمجازی طورپر بھی ان الفاظ کا استعمال شرعاً جائز ہوتا توخدا تعالیٰ ایسی اصطلاح سے اپنے کلام کو مبرا رکھتا۔ جس سے ایسے الفاظ کے استعمال کا جواز نہ لیا جاسکتا۔
ان مثالوں کوآپ کے سامنے پیش کرنے سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ خدائے قادرمطلق چونکہ روح ہے۔ یعنی انسان کی طرح صاحبِ جسم نہیں اور نہ ہی انسان کے سے خیالات ،خواہشات اورجذبات رکھتاہے ۔ اس لئے کلمتہ Adonai کی ابنیت جسمانی نہیں ہوسکتی۔ لہذا یہ مرقوم ہے کہ" جوجسم سے پیدا ہوا جسم ہے اورجوروح سے پیدا ہواہے روح ہے"(یوحنا ۳: ۶)۔ چونکہ کلمتہ Adonai خدا سے نکلے ہیں اس لئے وہ بحثیت ذات، خدا سے خدا ہے اور بحثیت انسان کامل انسان ہے۔
ازلی بیٹا
کلامِ مقدس میں کہیں ایسا اشارہ نہیں پایا جاتاکہ سیدنا مسیح کلمتہ Adonai خدا کا جسمانی بیٹا اورنہ یہ کہ جب خدا نہ تھا۔ جس طرح خداباپ، کا شروع نہیں، اسی طرح" ابن Adonai" کا شروع نہیں۔ اگرچہ ہمارے جسمانی رشتہ میں ایک زمانہ پایا جاتاہے ۔ یعنی قدامت میں پہلے باپ ہے اوربعدمیں بیٹا۔ نیز مرتبہ میں باپ اعلیٰ متصور کیا جاتاہے اوربیٹا ادنیٰ، لیکن کلمتہ Adonai کی ابنیت اوراولادِ آدم کی ابنیت میں یہی ایک فرق ہے کہ وہ یعنی کلمہ ازلی قائم بالذات Adonai اورکہ دنیا کی پیدائش کا وسیلہ ہے" ابتدا میں کلمہ تھا اورکلمہ خدا کے ساتھ کلمہ خدا تھا"(یوحنا ۱: ۱)اورکہ"ساری چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اورجوکچھ پیدا ہوا اُن میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی (یوحنا ۱: ۳)۔ غرضیکہ ازلی خدا کا کلمہ زماں ہے اورجوشے محیط زماں ہو اُس پر تقدم وتاخر کا اطلاق عائد نہیں ہوسکتا ۔لیکن باپ اور بیٹا ہم ذات اورہم جوہر ہیں اس لئے باپ اوربیٹے کی ماہیت وقدامت میں غیریت کا عقلاً محال ہے۔ لہذا لفظ باپ اوربیٹے میں مغائرت لفظی ہے نہ کہ ماہیت کے ۔
پدرنوروپسر نورایست مشہور
ازیں جافہم کن نورعلی نور
مزید برآں
واضح رہے کہ ازروئے قرآن شریف " سیدنا عیسیٰ مسیح ابن Adonai" (مرقس ۱: ۱) کی ابنیت کے تصور کے لئےجسمانی باپ کے وجود کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ جب جبرائیل نے مریم صدیقہ کے پاس آکر یہ خوشخبری سنائی کہ کلمتہ Adonai آپ کے بطن سے پیدا ہوں گے توصدیقہ نے کہا کہ " اے میرے رب ، میرے لڑکا کیونکر ہوگا"۔ حالانکہ مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا۔ فرمایا یہ کام مجھ پر آسان ہے ۔ اس طرح Adonai جو چاہے پیدا کرسکتاہے۔ وہ جب کام کوٹھہراتا ہے توصرف اتنا کہہ دیتاہے کہ" ہوجا سوہوجاتا ہے"(مریم ع۲ آل عمران ع ۵)یہاں قرآن شریف نے نہایت واضح طورپر بتلایا ہے کہ سیدنا مسیح کلمتہ Adonai کی ولادت کے لئے باپ کا وجود لازم نہیں ہے اورانجیلی عقیدہ تویہ مانتا ہی نہیں کہ جسمانی معنوں میں کسی کاباپ ہے۔
اس سلسلہ میں کہ" باپ" ،"بیٹا" اور"ماں" کے تصور ظاہر کرنے کے لئے جسمانی تعلق لازم ہے یا نہیں۔ ذیل کے اقتباس سےملاحظہ فرمائیے۔
چنانچہ قرآن شریف کہتاہے" Adonai نے تمہاری بیویوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو،تمہاری سچی ماں نہیں بنایا۔ اورنہ تمہارے لےپالک بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا ٹھہرایا ہے۔ یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اورAdonai سچ فرماتاہے۔۔۔۔نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں(سورہ احزاب ع)۔ان آیات کی رو سے اسلام میں (صلبی) بیٹے کی بیوی حرام ہے (۲)لیکن لے پالک کی بیوی حرام نہیں۔ (۳) بلکہ لےپالک توکسی کاوارث نہیں۔ (۴)نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں")۔
اسی طرح سے قرآن میں حضرت رسول عربی کے چچا کو جس کااصلی نام عبدالعزیٰ تھا۔ ابولہب یعنی شعلے کا باپ کہا گیا ہے ۔ کیا شعلہ کی کوئی بیوی یا بیٹا ہوتاہے؟"۔
" قرآن میں آٹھ مقامات میں راستہ کے مسافر کیلئے لفظ " ابن السبیل" یعنی سڑک کا بیٹا وارد ہواہے(بقر ۷۲)۔ اب ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیا کوئی مسافر لفظی معنوں میں سڑک کا بیٹا ہوسکتاہے؟ اورکیا سڑک کی کوئی جوُرو بھی ہوتی ہے؟"۔
"اسی طرح قرآن نے اپنے واسطے" اُم الکتاب" تجویز کیا ہے۔ (آل عمران ۵۔انعام ۹۲) اورکہ مکہ کے شہر کو " ام القریٰ" کہاہے۔اب ناظرین ہی انصاف فرمائیں کہ کیا یہاں بھی کوئی جنسی پہلو مراد ہوسکتاہے؟"۔
"دنیابھر کے مسلمان حضرت رسول عربی کے مشہور صحابی ابوہریرہ کے نام سے بخوبی واقف ہیں ،کیونکہ اُن سے اتنی حدیثیں مروی ہیں کہ کسی دوسرے شخص نے اس کثرت سے روایات بیان نہیں کیں۔ چونکہ آپ بلی سے محبت رکھتے تھے ۔ آپ کا نام ابوہریرہ پڑگیا اورایسا مشہور ہوگیا کہ عوام الناس آپ کا اصلی نام بھی نہیں جانتے۔ کیا آپ بلی کے حقیقی باپ کسی طرح سے بھی ہوسکتے تھے؟اورکیا بلی کی ماں آپ کی بیوی ہوسکتی تھی؟۔
سچ تویہ ہے کہ اربابِ دانش ایسی مضحکہ خیزدلائل سے اپنی روزانہ زندگی میں قائل نہیں ہوسکتے۔ ہرفرقہ کے بزرگ روزانہ بات چیت میں بیسوں کوپیار کی رُو سے بیٹا کہتے ہیں اوراس لفظ سے اُن کی مراد ہرگز یہ نہیں ہوتی کہ وہ سب کے سب اُن کے صلبی بیٹے اورشرعاً اُن کی جائیداد کے وارث ہیں۔پھر معلوم نہیں کہ معترض انجیل جلیل کی تعلیم پر اعتراض کرتے وقت معمولی عقل کو بھی استعمال نہیں کرتے "(ابوت کا الہٰی مفہوم تصنیف پادری برکت Adonai صفحہ ۱۹، ۲۰)۔
خصوصی امتیاز:
مختصر یہ کہ جو ابنیت کا رشتہ کلمتہ Adonai کی ذات سے تعلق رکھتاہے ، وہ بے مثل ہے جوکسی مخلوق کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ کو مجازی حیثیت سے بندگانِ خدا کوبھی" اطفال Adonai کہا گیا ہے۔ لیکن ان کی یا تو محض مخلوق ہونے کی وجہ سے یا کلمتہ Adonai کے وسیلے سے روحانی پیدائش حاصل کرنیکے سبب سے " اطفا Adonai" کہا گیا ہے۔ لیکن چونکہ مجاز کسی حقیقت سے متعلق ہوتی ہے۔ اس لئے کلمتہ Adonai جواس اعجاز کی حقیقت اورسبب ہے۔ اس لئے وہی " حقیقی بیٹا" ہے۔
انجیل مقدس سے یہ امر بصراحت واضح ہے کہ جب کبھی کلمتہ Adonai نے اپنے صحابیوں سے خدا کے "باپ" ہونے کا ذکر کیا توعموماً پیرایہ میں کیا جس سے یہ عیاں ہوجائے کہ خدا تعالیٰ اُن کا باپ اُسی معنوں میں نہیں جس مفہوم میں آپ کا ہے۔ الغرض کلامِ مقدس میں کلمتہ Adonai کے سوا کسی انسان کے متعلق یہ مذکور نہیں کہ وہ خدا سے نکلا، یا یہ کہ پیدائش عالم کا سبب ہے"۔ اورنہ کسی انسان کو" عین اکلوتا بیٹا" کہا گیاہے۔ لفظ اکلوتا اس امر پر دلالت صریح ہے کہ اس معنی میں کوئی اورخدا کا بیٹا نہیں ۔ کیونکہ وہ " اکلوتا بیٹا ہے"۔
پس سیدنا مسیح کلمتہ Adonai کی ابنیت ایک لاثانی حقیقت رکھتی ہے۔ اول۔ تقدس کے لحاظ سے ۔ دوم لاثانی اختیار کے اعتبار سے ۔ سوم۔ اعجازی ظہور کی بنا پر ۔ چہارم۔ آپ خود متصف بصفات ذاتِ باری تعالیٰ ہیں۔ چنانچہ انجیل شریف کے مطالعہ سے یہ امر بدیہی ہے کہ کلمتہ Adonai نے اپنے لئے " ابن" کا خطاب ایس طورپر استعمال نہیں فرمایا کہ جس سے یہ شبہ پیدا ہوسکے کہ یہ رشتہ خدا کے ساتھ محض جسمانی یا محض روحانی تعلقات کوظاہرکرتاہے۔ جو دُوسرے انسان بھی حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس رشتہ میں باپ اوربیٹے کی ازلی وذاتی ماہیت ظاہر ہوتی ہے۔
انجیل مقدس میں یہ امتیاز یوں ہے کہ سیدنا مسیح چونکہ خداوند تعالیٰ سے ازلی وذاتی اتحادرکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ " کلمہ خدا " ہیں۔ (یوحنا ۱: ۱)۔ کائنات کی پیدائش کا وسیلہ ہیں "۔ (یوحنا ۱: ۳)۔ اوراکلوتا بیٹا "ہیں(یوحنا ۶: ۱۶)۔ اس حیثیت سے آپ حقیقی خدا ہیں۔ اورکلام مجسم ہونے کی حیثیت میں آپ چونکہ انسانیت کے ساتھ حادث اوراختیاری اتحاد رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ حقیقی انسان ہیں لہذا سیدنا مسیح کو جیسے ابن Adonai کہہ سکتے ہیں۔ ویسے ہی ابن آدم یا ابن مریم کہہ سکتے ہیں۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے انسان روح اورجسم دوجداگانہ ماہیتوں کے باوجود ذی روح اورذی جسم ہے۔ اسی مثال کے مطابق سیدنا مسیح بھی محض انسان ہونے کے بجائے صاحبِ الوہیت اورصاحبِ انسانیت ہیں۔ مگریہ اتحاد بطورترکیب وتحلیل نہیں بلکہ بطورظاہر ومظہرا قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے آپ الوہیت ازلی وابدی ہے اورآپ کی انسانیت محدود اورحادث ہے پس نتیجہ صاف ہے کہ سیدنا مسیح کی حیثیت اول ابن Adonai کی ہے اورحیثیتِ دوم ابن آدم کی ہے۔
ثالوثِ اقدس
چنانچہ کلامِ مقدس سے یہ معرفت حاصل ہوتی ہے کہ ذات الوہیم میں اب ، ابن اورروح میں اقنوم ہیں(متی ۲۸: ۲۹)۔ اوران اقانیم کا امتیاز، ذات الوہیم ہی میں بطور راز کے ہے۔ ذاتِ خداوند ی میں ان اقانیم کا اجماع ، خارجی نہیں اورنہ ہی کسی بیرونی تفریق کو اس میں راہ ہے۔ بلکہ یہ ازل سے ذاتِ خداوندی میں ہیں۔ جیسے سورج میں ذاتی اوراندرونی طور سے روشنی ،گرمی پائی جاتی ہے۔ ویسے ہی ذات الوہیم میں تین اقانیم ہیں۔ اقنوم اول میں باپ ہے کہ اقنوم ثانی یعنی کلمہ اس سے صادر اورظاہر ہوا ہے(یوحنا ۱: ۱۸)۔جو"پہلوٹا ہے،" اکلوتا بیٹا"(یوحنا ۱: ۵)۔ کہلاتاہے۔ اوراقنوم ثالث باپ اوربیٹے کا روح ۔۔۔رومیوں ۸: ۹)۔ اورجس طرح کلامِ مقدس میں باپ کو خدا اورخدا وند کہا گیا ہے اسی طرح کلمہ یا بیٹا کو(یوحنا ۱: ۱، رومیوں ۱: ۵ اورعبرانیوں ۱: ۸) اورروح القدس کو ۔۔۔۲کرنتھیوں ۳: ۱۷ تا ۱۸)۔ خدا اورخداوند کہا گیا ہے"( بخیال از اثبات التثلیث فی التوحید")۔
خدا کا یہ تصور محض تصور ہی نہیں بلکہ ایسا تصور ہے جوایک صریح حقیقت کا بیان کرتاہے۔ اوریہ انکشاف خدا کی ذات کاہے۔ جس میں اقنوم ثلاثہ کاکامل اتحاد ہے۔ وہ ایسے حاکمِ مطلق کی طرح نہیں ہے جسے اپنے اکیلا پن ہی میں اپنی شوکت نظر ہو۔ خدا محبت ہے اورمحبت کا خاصہ ہے کہ وہ رفاقت رکھتے۔ اس لئے اُس وحدت میں تثلیث کی معموری پائی جاتی ہے۔اوریہی محبت اس امر کی محرک تھی کہ وہ انسان کو جسے اُس نے اپنی صورت پر خلق کیا اپنی رفاقت میں رکھے اوراسی باعث کلمہ مجسم ہوا تاکہ انسان اپنے خالق کو جانے، اُسے پہچانے اوراس کی رفاقت میں رہنے کے قابل ہو ، واضح رہے کہ الہٰی محبت کے اس فعل کا محرک صر ف کلمہ ہی اکیلا نہ تھا بلکہ اس میں ثالوثِ مقدس کے تینوں اقنوم شامل تھے۔
خدائے برحق
انجیل مقدس سے یہ ثابت ہے کہ سیدنا مسیح کے صحابی آپ کو انسانی صورت خدائے برحق مانتے تھے۔اسی وجہ سے وہ آپ کی پرستش کرتے تھے(لوقا ۲۴: ۵۲، متی ۲۸: ۱۷)۔ حالانکہ وہ خدائے واحد کے ماننے والوں میں سے تھے لیکن چونکہ اُنہوں نے سیدنا مسیح ابن خدا " کی رفاقت میں رہ کریہ تجربہ کیاکہ آپ خدا تعالیٰ سے لاثانی اوربے عدیل تعلق رکھتے ہیں(مرقس ۱: ۱۱، ۹: ۱۷)۔ اورآپ ان معنوں میں خدا کے بیٹے نہیں جس مفہوم میں دیگرانسان خدا کے بیٹے کہلاتے ہیں۔ (متی ۱: ۲۷)۔ اوراسی وجہ سے آسمانی باپ نے سب چیزیں اُس کے ہاتھ میں دے دی ہیں" (یوحنا ۳: ۳۵)۔ اورکہ" جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا اورزندہ کرتاہے "(یوحنا ۵: ۲۱)حتیٰ کہ آپ کی زندگی کا مقصدوہی ہے جوباپ کا ہے (یوحنا ۵: ۱۷)اس لئے آپ کی زندگی کا ہر واقعہ ، اورآپ کا ہرمعجزہ آسمانی باپ کی محبت کا کامل مظہر ہے(یوحنا ۱۰: ۲۲۔ ۳۹)۔ ان وجوہات پر اُنہوں نے ماناکہ" سیدنا مسیح ابن خدا ہی "الفا اوراُومیگا،اول اورآخر ، ابتدا اورانتہا ہے(مکاشفہ ۱: ۱۸۔ ۲۲: ۲۳)۔
پس ذاتِ الوہیم میں تین اقانیم کا انکشاف کسی فلسفی نظریہ پر مبنی نہیں بلکہ سیدنا مسیح کے اقوال ومبارک زندگی سے ظاہر وثابت ہے کہ ذاتِ الوہیم محبت کے تین اقانیم پر مبنی ہے۔ جس کا ظہور ہم پر باپ بیٹے اورروح القدس کے رُوپ میں ہواہے۔ اوریہ الفاظ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ کوئی اورایسا لفظ ہماری لغت میں نہیں جس سے ہم ایسے مانوس ہوں اورجوباپ اوربیٹے کے شخصی تعلق اورمحبت کوکماحقہ ظاہر کرسکے۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہم تین خداؤں کومانتے ہیں بلکہ یہ کہ واحد خدا کی ذات میں وحدت اورکثرت دونوں کو مانتے ہیں۔ یعنی اس کی واحد ذات میں ایک باپ ہے جوبھیجنے والا ہے اورایک بیٹا ہے جواس واحد ذات کوظاہر کرنے کےلئے بھیجا گیا ہے اورایک روح القدس ہے جواس سے صادر ہے۔ لہذا وہی خدا جس کی خبرہم نے نبیوں کی معرفت، عہدقدیم میں سنی تھی ۔ عہدجدید میں باپ اوربیٹے اورروح القدس کے رُوپ میں نظر آتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگرہم کسی پہاڑ کو دُور سے دیکھیں تواُس کی سطح ہمیں بڑی دلکش اورہموارنظر آتی ہے۔ لیکن جونہی ہم اُس کے قریب جائیں گے تووہ سطح جوُدور سے ہموار اور دلکش نظر آتی ہے تھی۔ اونچی نیچی ٹوٹی پھوٹی اورپیچ درپیچ بل کھاتی ہوئی نظر آئے گی۔ اسی طرح جس قدر ہم خدا کے قریب ہوتے ہیں اُسی قدر خداوند تعالیٰ کی واحد ذات میں جوامتیاز ہیں وہ ہم کو اورزیادہ واضح نظر آتے ہیں۔
چنانچہ جب ذاتِ باری مسیح کے وسیلے ہماری سطح پر آگیا توشاگردوں پر یہ رازکھلا کہ سیدنا مسیح انسانیت کے پردے میں آسمانی باپ کا اکلوتا بیٹا ہے اوروہ اس لئے ہماری سطح پر آیا ہے کہ ہم پر ذاتِ الہٰی ظاہر کرے اوریو ں اُنہیں ذاتِ الہٰی میں کثرت کا تجربہ ہوا۔ کیونکہ اول وہ بیٹے کی رفاقت میں رہتے تھے اوردوم روح القدس سے اُن کو یہ معرفت حاصل ہوئی ۔ اسی باعث یوحنارسول کہتاہے کہ
اس زندگی کے کلام کی بابت جوابتدا سے تھا اورجسے ہم نے سنا اوراپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہاتھوں سے چھوا۔ یہ زندگی ظاہر ہوئی اورہم نے اسے دیکھا اور اس کی شہادت دیتے ہیں اوراسی ہمیشہ کی زندگی کی تمہیں خبردیتے ہیں جو پروردگار کے ساتھ تھی اورہم پر ظاہرہوئی )۔ جوکچھ ہم نے دیکھا اورسناہے تمہیں بھی اس کی خبر دیتے ہیں تاکہ تم بھی ہمارے شریک ہو اورہماری شراکت پروردگار کےساتھ اوراس کے ابن سیدنا عیسیٰ مسیح کے ساتھ ہے۔ اوریہ باتیں ہم اس لئے لکھتے ہیں کہ ہماری خوشی پوری ہوجائے۔(۱۔یوحنا ۱: ۱تا ۴)۔
ہمارا دعویٰ صرف یہ ہے کہ کلمتہ Adonai کے لئے لفظ" ابن Adonai کا استعمال نہایت ہی زبیا ہے۔اوّل اس لئے کہ وہی اکیلا خدا کا ظاہر کرنے والا ہے۔ ورنہ اندیکھی ذات کا عرفان بغیر کسی مظہر کے کیونکر ممکن ہے" اکلوتا بیٹا جوباپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا "(یوحنا ۱: ۱۸)۔ ثانیاً اس لئے کہ اندیکھی ہستی کو نہ کوئی جان سکتاہے اورنہ ہی بتلاسکتاہے کہ خدا کیسا ہے"؟ جس نےمجھے دیکھا اُس نے باپ کودیکھا"(یوحنا ۴: ۱۰)۔ پس وہ لوگ جولفظ" ابن Adonai" کے استعمال پر اعتراض کرتے ہیں، چاہیے کہ وہ پہلے یہ ثابت کریں کہ جس تصور کے اظہار کے لئے یہ لفظ" کتاب Adonai میں استعمال ہواہے وہ زیبا ومعیوب ہے؟
عقدہ لایخل:
الغرض لفظ" ابن Adonai" سے ہماری مراد یہ قطعاً نہیں کہ کلمتہ Adonai خدا کا جسمانی بیٹاہے، البتہ قرآن شریف کلمتہ Adonai کو معنی میں آدمی اپنے بیٹے کو" جان پدر " کہتاہے ، لہذا ہم اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں قرآن شریف کی صرف دوآیتیں نقل کردیتے ہیں۔ اور اُمید کرتےکہ اس بحث میں ہمارے اوراہل اسلام کے درمیان بہت کچھ فیصلہ ہوجائیگا۔
پہلی آیت یہ ہے کہ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ  یعنی تحقیق مسیح عیسیٰ ابن مریم Adonai کا رسول ہے اورAdonai کا کلمہ ہے جوڈالدیا مریم کی طرف اورAdonai کی روح ہے"(نساء آیت ۱۷۱)۔ دوسری بھی ملاحظہ فرمائیے وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَ ۔ یعنی مریم عمران کی بیٹی جس نے محافظت کی اپنی شرمگاہ کی۔ پس پھونکا ہم نے بیچ اُس کے روح اپنی کو'(سورہ التحریم آیت ۱۲)۔
پہلی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ خدا نے " اپنا کلمہ مریم میں ڈالا" اوردوسری آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ " خدا نے اپنا روح مریم میں پھونکا"۔ اب" ڈالنا" اور"پھونکنا" ۔ خدا کے نزدیک ایک ہی بات ہے ۔ لہذا ہردوآیات میں خدا " فاعل" ہے۔ ڈالا اورپھونکا " فعل" ۔مریم" ظرف" اورکلمہ وروح مظروف ۔ پس اگراہلِ اسلام کوکوئی امرمانع نہ ہو تووہ ہمیں کشادہ دلی سے بتائیں کہ اس سے بڑھ کر میاں بیوی میں گہرا تعلق اورکیا ہوتاہے؟
مزید براں
یہ عقدہ اوربھی لایخل بن جاتاہے جبکہ اہل اسلام کے بعض فرقے خدا کی جسمیت کے قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ ومثل مفرو کمش واحد ہجمی وغیرھم من اہل السنتہ قالو امعبودھم صورتہ ذات اعضا الیاس۔۔۔۔۔۔ الخ یعنی مضروکمش واحمد ہجمی وغیرہ اہل سنت سے تھے جواس بات کے قائل ہیں کہ Adonai صورت رکھتاہے۔ اُس کے عضا بھی ہیں اورجزوبھی خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی۔ وہ انتقال بھی کرسکتا ہے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلائے ، وہ بلندی پر چڑھ سکتاہے اورنیچے بھی اُترسکتاہے ۔ اس کے بعد علامہ مذکور لکھتے ہیں کہ قرآن یا حدیث میں اس قسم کے لفظ وارد ہوئے ہیں وہ سب کے لفظی معنی مُراد لیتے ہیں۔ کتاب ملل )۔
مضر اورکمش کوئی معمولی شخص نہیں تھے بلکہ امام بخاری اورامام مسلم کے اساتذہ تھے۔ وہ مذہبی " میزاں الاعذال میں لکھتے ہیں کہ کمش ثقہ ہیں، صالح ہیں اورہرروز شب میں ایک ہزار سے زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ امام ذہبی خود جسمیتِ خدا کے قائل تھے۔ چنانچہ لکھاہے " ومکنہ غلب علیہ مذہب الاثبات ومنافرہ التاویل والغفتہ من التزیہ حتیٰ اشرذالگ فی طبوہ انعراف شدید من اہل التنزیہ ومہم توبالی اہل الاثبات یعنی ذہبی پر مذہب اثبات غالب ہے اور تاویل سے نفرت اور تنزیہ سے غفلت جس نے اُن کی طبعیت میں ایسا اثر کیاکہ وہ اہل تنزيہ (جوAdonai کی جسمیت وغیرہ سے منزہ جانتے تھے) سے منحرف تھے اور اُن لوگوں کی طرف زیادہ مائل تھے جوجسمیت کوخدا کے لئے ثابت کرتے ہیں "(ملاحظہ ہو ابوِت الہٰی کا مفہوم صفحہ ۶تا ۹)۔
چنانچہ دورِ حاضرہ کے قادیانی مسیح جنابِ مرزا غلام احمد صاحب آنجہانی کے نقطہ نظر سے خدا تعالیٰ رجولیت کی قوت کا اظہار بھی کرتاہے ۔ چنانچہ مرزا صاحب کے ایک مرید خاص قاضی یارمحمد صاحب بی ۔ اے ۔ او۔ ایل پلیڈر اپنے ٹریکٹ نمبر ۳۴۔ موسوم بہ اسلامی قربانی مطبوعہ ریاض ہند ۔ پریس۔ امرتسر میں لکھتے ہیں کہ:
"جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اورAdonai تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔ سمجھنے والے کے واسطے اشارہ کافی ہے۔ (استغفر Adonai ) توضحیح المرام صفحہ ۲۷)۔
سوال
لیکن امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ وہ پیدا کیا گیا Adonai کے کلمہ سے اوراُس کے حکم سے بغیر کسی وسیلہ یا نطفہ سے " (جلد سوم صفحہ ۵۰۲)۔ اوربیضاوی میں ہے کہ کلمہ القہا یعنی اسمیں (مریم) واصل کیا گیا۔ اوراس میں ڈالا گیا۔ نہ کسی وسیلہ سے جس کے ذریعے تخم قرار پکڑتا ہے اورنہ اس مادہ سے"(جلد اول صفحہ ۲۱۹)۔
اب یہ امرتصدیق کا محتاج نہیں کہ جوچیز آدمی ڈالتاہے اُسے"نطفہ" کہتے ہیں اور جو خدا نے ڈالا اس کا نام" کلمہ" اور" روح" ہے۔ یہ صرف نام کافرق ہے۔ نتیجہ ایک ہی ہے یعنی بچہ پیدا ہوا۔امام بیضاوی کا یہ فرمانا کہ نہ " کسی وسیلہ سے جس کے ذریعے تخم قرار پکڑتاہے اورنہ مادہ سے" لیکن بندہ نواز! تخم موجود ہے یعنی " کلمہ " اور" روح" مادہ بھی موجود ہے۔ یعنی " مریم" ۔لہذا تخم نے پکڑا اورلڑکا پیدا ہوا۔ اب کون سے ذریعہ اوروسیلہ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اوراگر نہ کوئی ذریعہ ہے نہ وسیلہ نہ تخم اورنہ مادہ توپھر بچہ کیسے پیدا ہو؟ کیا یہ عقدہ لایخل نہیں؟
انجیل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ کلمتہ Adonai اقنوم ثانی ہونے کی وجہ سے ابن Adonai ہے۔ کیونکہ وہ خدا کوظاہر کرنے والا ہے اورمجسم ہونے کے لحاظ سے ابن مریم سے ۔ مگر قرآن شریف کلمتہ Adonai کو اُسی معنی میں روح Adonai مانتاہے جس معنی میں آدمی اپنے بیٹے کو جانِ پدرکہتاہے۔ کیونکہ بقول قرآن خداتعالیٰ وہ سب وسائل اختیار کرتاہے جوآدمی اپنی اولاد کے لئے کرتاہے تاہم مسلمان یہ قبول کرنا نہیں چاہتے کہ مقدسہ مریم اس معنی میں خدا کی " صاحبتہ" ہیں، جس معنی میں آدمی اپنی اہلیہ کہتاہے۔ تعجب ہے کہ ایک جوشیلا مسلمان کس شوخی اوربے باکی سے ہم سے یہ سوال کرتاہے کہ خدا کی جورو نہیں ، اس کے بیٹا کہاں سے ہوا اورنہیں جانتاکہ قرآن اس کو کیا جواب دیتاہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ خدا کی جُورو کیوں نہیں ۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ وانہ تعالیٰ جلد ربنا ماتخذ صاحبہ ولا ولد یعنی بہت بلند پروردگار ہمارے کی۔ نہیں پکڑی اُس نے بیوی اورنہ اولاد " (جن کو گویا کہ ذاتی فخر، بلند ، مرتبہ ، عزت وقار جورو کا مانع ہے ورنہ وہ جورو رکھتا اورصاحبہ اولاد ہوتا۔
قولِ بشر
آیت مذکورہ سے ظاہر ہےکہ بیان کرنے والا غیر خدا ہے جوخدا کو واحد مذکرسمجھتاہے۔ اورعام دستور کے مطابق حکم لگاتاہے کہ بغیر جورو کا بیٹا ہونا محال ہے۔ یعنی خدا کا بے اولاد رہنا صرف جُورو کی عدم موجودگی ہے ،ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ خدا اولاد سے محروم رہتا۔ حالانکہ خدا کی نسبت ایسا گمان کرنا ایک ادنیٰ خیال ہے کیونکہ جہاں امکان شے نہیں وہاں امکان شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔کوئی نہیں کہتاکہ خدا نہیں دیکھتا کیونکہ اُس کے آنکھ نہیں اورنہیں سنتاکہ اُس کے کان نہیں ، آنکھ کان وغیرہ رفع محتاجی کے آلات ہیں اورحیوانی زندگی کے لازمہ جُز ہیں لیکن Adonai تعالیٰ مستفنیٰ بالذات ہے جوبغیر آنکھ کے دیکھتا اوربغیر کان کے سنتا ہے اوربغیرہ جُورو کے بیٹا بھی رکھتا ہے ۔ پس یہ محال پیش کرنا کہ خدا کی جُورو نہیں توبیٹا کیسے پیداہوا؟ شبہ پیدا کرتاہے اگرخدا کی جورو ہوتی تو وہ ضرور صاحبِ اولاد ہوتا۔حالانکہ خدا کی ذات میں جورو کا امکان نہیں ۔ وہ جو چاہتاہے کرسکتاہے صرف اتنا ہی کہہ دینا خدا تعالیٰ کے لئے کافی ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتاہے(پیدائش ۱: ۳)۔
ان وجوہات کی بنا پر اہلِ عرب نے قرآن کو قولِ بشر کہہ دیا بل قوالمہ اصنفات امہ یرمل افترہ ھد شاعر" یعنی وہ کہتے ہیں کہ قرآن پریشان خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اُس نے جھوٹ باندھاہے بلکہ وہ شاعر ہے(سورہ انبیاء) اس پر آنحضرت نے بڑے درد سے شکایت کی وقال الرسول رب ان قومی انخلذ واھذی القرآن مھجورا یعنی کہا رسول نے اے میرے رب میری قوم نے ٹھہرایا اس قرآن کوجھک جھک (فرقان ع ۳)۔
فوق البشر
لیکن اگرقرآن شریف نے بلاواسطہ پیدائش کے سبب کلمتہ Adonai کو ابن مریم کہاہے تو یہ نرالا محاورہ دلالت کرتاہے کہ آپ فوق البشر ہیں اوربنی آدم کے سلسلہ سے نہیں حالانکہ انسا کی پیدائش کے سلسلہ میں حضرت پہلی کڑی ہیں لیکن کلمتہ Adonai بذاتِ خود ایک سلسلہ ہیں (یوحنا ۱: ۳)۔ لیکن چونکہ آپ انسانی شکل میں ظاہر ہوئے اس سبب سے آپ کو " ابن مریم " کہا گیا ۔ ورنہ آپ کی ابنیت (الوہیت)غیر مخلوق ہے۔ جیساکہ یسیعاہ نبی کے صحیفے سے آشکارا ہے کہ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اورہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اورسلطنت اُس کے کاندھے پر ہوگی، اوروہ اس نام سے کہلاتاہے عجیب مشیر خدائے قادر ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ (۹: ۶)۔
آیت شریفہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ " لڑکا تولد ہوا" یعنی موعود کی بشریت البتہ مخلوق ہے لیکن اُس کی ابنیت غیر مخلوق ہے۔ کیونکہ بیٹے کے متعلق " تولد ہوا" نہیں کہا گیا بلکہ "بخشا گیا" ہے۔ کیونکہ وہ ازل سے تھا لیکن جولڑکا تولد ہوا ہے، اس کی پیدائش کا سبب کوئی انسان نہیں(لوقا ۱: ۳۸)۔ اوریہ مولود مقدس" حکمت اورقدوقامت میں" یعنی انسان بن کر انسان کی طرح بڑھا اور"خدا اورانسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا"(لوقا ۳: ۵۲)۔ حالانکہ اُس کا نام "خدائے قادر "ہے۔(یسعیاہ ۹: ۶)۔ وہی اکلوتا بیٹا اورخدا کی ہم ذات ہے۔(متی ۱۶: ۱۶، یوحنا ۱۱: ۴، ۳: ۱۶، ۱۸۔ خدا کے برابر ہے(یوحنا ۸: ۱۸، ۱۹، ۲۳، ۱۰: ۳۰، ۔ ۱۴: ۱۔ اورحقیقی خدا ہے، یوحنا ۱: ۱۔ ۲۰: ۲۸۔ متی ۱: ۱۲، لوقا ۱: ۱۶، ۱۷)۔
اختیاری ولادت
یہ امر مسلمہ کہ ہر شخص کی پیدائش میں باپ کا تصورلازم ہے۔ لیکن کلمتہ Adonai کی ولادت میں جسمانی باپ کا وجود لازم نہیں(آل عمران ع ۳۔ متی ۱: ۱۸ تا ۲۵۔ لوقا ۱: ۲۶تا ۳۵)۔بلکہ مسیحی مصطلحات کے مطابق سیدنا مسیح اپنی پیدائش کے مختار ہیں، یعنی اُن کو اختیار تھاکہ آپ بشری جامہ پہنتے یا نہ پہنتے۔ چنانچہ مرقوم ہے کہ اُس نے اگرچہ خدا کی صورت اختیار کی اورانسانوں کے مشابہ ہوگیا"اورانسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا اور یہاں تک فرمانبردار رہاکہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ "فلپیوں ۲: ۶تا ۸)۔ یعنی کلمتہ Adonai کو اختیار تھا کہ آپ اپنی مرضی سے ایک حالت سے دوسری حالت میں آئیں یا نہ آئیں۔ لیکن چونکہ آپ نے بشریت کا جامہ پہنا ۔ اس سبب سے آپ ، انسان فانی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ گویاکہ خدا کی حکمت کادوہرا تعلق کلمتہ Adonai کی ذاتِ اقدس سے وابستہ ہے۔ یعنی ازلی حیثیت ،ابن Adonai ، اورانصافی حیثیت " ابن مریم" اورابن مریم کا نرالہ محاورہ کلمتہ Adonai کی"الوہیت اورانسانیت کا حامل ہے یعنی اتحادی حیثیت کوظاہر کرتاہے۔
الحاصل خدا نے آدم کوخلق کیا اورانسانی نسل کا سبب ٹھہرایا۔ لیکن" ابن Adonai" جیساکہ یسعیاہ نبی نے کہاہے کہ" بخشا گیا"ہے۔ اورلفظ" بخشا" اس امر پردلالت صریح ہے کہ " ابن Adonai " غیر مولود ہے۔ اورکہ ذات باطن کی حیثیت ظاہر ہے(یوحنا ۱: ۱۸)۔ پس کلمتہ Adonai بلاواسطہ پیدائش کے سبب جیسے" ابن Adonai" ہیں(لوقا ۱: ۳۶)ویسے"ابن مریم" بھی ہیں۔ ایک پہلو سے ابن Adonai" دراصل خدا باپ کے ساتھ ایک ہی ماہیت رکھتے ہیں اوردوسرے پہلو سے کلمتہ Adonai کیونکہ آپ مجسم ہوئے(یوحنا۱۱: ۱۴)۔ یہ الفاظ دیگرکلمتہ Adonai کی دوحیثیتیں ہیں۔ حیثیت الوہیت"۔ اورحیثیتِ دوم۔ بشریت ۔ اب اس بشری حیثیت کی خواہ ابن مریم کہئے یا ابن Adonai ایک ہی ہے وہ ہر حالت میں غیر مولود اورواجب بالذات ہے"(یوحنا ۱: ۱)۔
ابن آدم:
انجیل مقدس کا سطحی مطالعہ یہ بھی ظاہر کرتاہے کہ کلمتہ Adonai اس لئے " ابن آدم" کا خطاب اپنے لئے تجویز فرمایا جس سے یہ ظاہر کرنا مطلوب تھاکہ آپ نے کیوں" انسانی شکل" میں ظاہر ہوکر صلیبی موت گوارا کی" واضح رہے کہ کلمتہ Adonai کی صلیبی موت خدا کا ازلی لائحہ عمل تھا جو کسی بیرونی دباؤ کی وجہ سے واقعہ نہ ہوا تھا۔ بلکہ انسان کی بے بسی اور روحانی کشمکش دیکھ کر کلمتہ Adonai کے اندرتحریک پیدا ہوئی کہ آپ صلیبی موت کا مزہ چکھیں۔ جیساکہ کسی چیختے چلانے بچے کی طرف ہماری توجہ مبذول ہوجاتی ہے اورہم اُس کی مدد کے لئے طبعاً قرار ہوجاتے ہیں۔ ہماری اس غیر ارادی ہمدردی سے کہیں زیادہ درجے ابن Adonai نے نوع انسان کی نجات کی ضرورت کومحسوس کیا اورہماری نجات کے لئے شرم اورپچھتاوا صلیب پر ظاہر کیا۔ آپ کے دل پر ہمارے گناہوں کا بوجھ تھا۔ اس کا اندازہ ہم آپ کی اس حالت سے کرسکتے ہیں۔ جب آپ یروشلیم کودیکھ کرروئے۔ لہذا ابن Adonai کی موت میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔جس کے لئے آپ پہلے تیار نہ ہوں۔چنانچہ آپ نے قصداً ان حالات کو اپنایا" جن کا نتیجہ موت تھا"۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کی موت ہی کے ذریعے خدا اورانسان میں ملاپ ہوسکتا ہے اس لئے آپ نے وقت مقررپر ایک وفادار ضامن کی طرح اپنا قول پورا کیا اورہمارے گناہوں کے فدیہ میں کوہ کلوری پر اپنی مبارک جان دے دی۔ حالانکہ " اس کا علم توبنائے عالم سے پیشتر سے تھا مگرظہور آخرزمانہ میں تمہاری خاطر ہوا"(۱پطرس ۱: ۲۰)۔
چنانچہ کلمتہ Adonai اس خطاب سے اول اپنے تجسم کا اظہار فرماتے ہیں اورثانیاً اپنے لئے ابن آدم کا خطاب ایک تخفیفی معنوں میں استعمال کرتے ہیں ، یا یوں کہیں کہ ربنا المسیح نے ایک عام لفظ سے اپنی جسمانی زندگی ، صلیبی موت ، فتحیاب قیامت اور ظفریاب آمدِ ثانی کا اظہار فرماکر اسے ایک اعلیٰ ترین خطاب بنادیا۔ اگرچہ آپ کا رُتبہ اس قدر بلند وبالا ہے کہ کوئی خطاب کماحقہ آپ کی ارفع ہستی کوظاہر نہیں کرسکتا ، تاہم ان خطابات سے جوانجیل اورقرآن میں مرقوم ہیں، کلمتہ Adonai کی الاانتہائت کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور سچ تویہ ہے کہ ماعر فناک حق معرفتک تیری شان کے لائق ہم تجھے پہچان نہ سکے۔
منقولِ شرع
یہاں تک ہم نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسیح کلمتہ Adonai ان معنوں میں ابن Adonai ہے جوخدا کی شان کے شایاں ہے۔ بیوی کے ذریعہ پیدا ہونے والے کو ہم " ابن Adonai "نہیں کہتے۔ ہم حق تعالیٰ کے قول وفعل سے وہی اُمید نہیں رکھتے جوانسان کے قول وفعل سے ہوتی ہے۔ جیسے خدا کے سمع وبصر کوجسمانی کان اورآنکھ نہیں ۔ سمجھتے بلکہ بغیر آنکھوں اورکانوں کے تصور کرتے ہیں ۔ ویسے ہی خدا کی الوہیت بغیر زن وشوہی تعلقات کے مانتے ہیں ۔ پس کلمتہ Adonai کا ابن Adonai ہونا اس معنی میں نہیں جس مفہوم میں ہم اپنے صُلبی بیٹے کو ابن Adonai کہتے ہیں۔ بلکہ ہم اس خطاب سے کلمتہ Adonai کے اس ازلی وذاتی تعلق کو جو آپ ذاتِ الہٰی سے ہے اس لئے ذاتِ الہٰی سے رکھتے ہیں ، ظاہر کرنے کے لئے مثالی طورپر استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ کلمتہ Adonai کا ظہور ذاتِ الہٰی سے ہے ۔ اس لئے ذاتِ الہٰی کی حیثیت باطن کو" باپ" (ھو Adonai باطن) اورحیثیت ظاہر ہو" ابن Adonai" (ھوAdonai ظاہر )کہتے ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ ، ابن Adonai کا لفظ منقولِ شرع ہے اور سچ تویہ ہے۔ کہ عدیم است عیش چُوں خداوند کریم



 


Allama Khurshid Alam

تشبہیات کے سبب نام کی تبدیلی کا جواز:

احمدی مولوی فاضل ابوظفر عبدالرحمان مبشر لکھتے ہیں " یہ عام بات ہے کہ بوجہ مشابہت ومماثلت تامہ ایک شخص کو دوسرے شخص کا نام دیا جاسکتاہے ۔ عرب لوگ آنحضرت کو ابن ابی کثیر کہا کرتے تھے" (بشارت رحمانیہ جلد دوم صفحہ ۴۲)۔

پس تشبہیات کے تحت ہی مرزا صاحب نے کھوپڑی کی جگہ کوسری نگر کا نام دیا۔ اوریوسف آرمتیا کو یوس آسف کا نام دیا اورآسمان کو کشمیر کا نام دیا۔ مگر افسوس کہ قادیانی دوست آج تک ان استعاروں کو سمجھنے میں قاصر رہے ہیں اوروہ استعاروں کو ظاہرپر محمول کرکے حقیقت سے بہت دورجا پڑے ہیں۔

مرزا صاحب سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے قائل تھے:

اب مرزا صاحب کی تحریرات سے ایسے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔ جن سے صاف عیاں ہے کہ آپ سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے قائل تھے ۔چنانچہ آپ لکھتےہیں " لخت جگر رسول Adonai صلیہ Adonai علیہ وسلم حضرت مسیح کی طرح کمال درجہ کے ظلم اورجوروجفا کی راہ سے دمشقی اشقیاکے محاصرہ میں آکر قتل کئے گئے ۔ "(ازالہ اوہام بقیہ حاشیہ صفحہ ۶۹۔۔۔۔) یہاں مرزا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے بالکل صاف الفاظ میں حضرت امام حسین کی طرح سیدنا مسیح کاصلیب پر قتل ہونا مان لیاہے۔ یہاں یہ الفاظ " کی طرح " سیدنا مسیح کو اورحضرت امام حسین کوقتل کے سلسلہ میں ایک ہی زمرہ میں شامل کرتے ہیں۔

· دلیل نمبر۲ : پھر آپ لکھتے ہیں " یہودی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اورحضرت مسیح کو مارکر پھردوسروں کے قتل کی طرف متوجہ ہوئے"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۴۰)۔ اس بیان میں بھی مرزا صاحب نے صاف تسلیم کرلیا ہے کہ یہودیوں نے سیدنا مسیح کوصلیب پر ماردیا تھا۔ یہاں الفاظ صاف اور عام فہم ہونے کے سبب کسی تشریح کے محتاج نہیں۔

· دلیل نمبر ۳ : پھرآپ لکھتےہیں : پرسپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اورفی الفور اُس سے لہو اور پانی نکلا"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۵)۔

مندرجہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ مرزا صاحب یہ تسلیم کرتے تھے کہ فی الواقع مسیح کی پسلی میں سے بھالا مارنے سے خون اورپانی بہہ نکلا۔ اب حل طلب امریہ ہے کہ آیا خون اورپانی کا بہہ نکلنا مسیح کی موت پر دلالت کرتاہے یا زندگی پر۔ سواس امر میں ہم علم طب کی رُو سے ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ خون اورپانی بہہ نکلنا سیدنا مسیح کی وفات کا ثبوت تھا۔چونکہ سیدنا مسیح کے بدن سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بعمہ پانی نکلا تھا سوہم اس بات پر غورکریں گے کہ خون کی یہ کیفیت کس مرحلہ پر ہوتی ہے۔ اورآیا جماہوا خون اورپانی زندہ انسان سے نکلتا ہے یا مُردہ انسان سے۔سواس کے متعلق ڈاکٹر ہمفری صاحب کے رسالہ تیمارداری " مترجمہ ڈاکٹر گھوش رائے بہادر" کے صفحہ ۳۴ پر انجماد خون کے عنوان کے تحت مندرجہ ذیل کی تشریح درج ہے" جسم سے خون نکلنے پر خون یتال ہوتاہے۔ لیکن اگر اُس کوہلاتے جلاتے نہ رہیں تووہ بہت جلد جم جاتاہے ۔ ہلانے جلانے سے اس میں سے ایک ریشہ دار شے جس کو فائیبر کہتے ہیں نکلتی ہے۔ اوراس کے بُدوں وہ جم نہیں سکتا۔ اگرخون کسی برتن میں کچھ عرصہ تک رکھ چھوڑتے ہیں تووہ جم کر بعدمیں سکڑنے لگتاہے۔ اوراُس وقت اس میں سے ایک پتلا زرد رنگ پانی یا سیال نکلنے لگتاہے جس کو سیرم کہتے ہیں۔ جمے ہوئے لوتھڑے میں فائیبرن اورگول دانے ہوتے ہیں۔جب قلب تندرست شرائن میں خون گردش کرتا رہتاہے توہ سیال رہتاہے۔ لیکن بعض حالات اورچند امراض میں وہ شران ہی منجمد ہوکر خطرناک علامات کا موجود ہوجاتاہے"۔

مندرجہ بالا بیان سے ثابت ہوگیا کہ زندہ انسان کے بدن سے خون نکلنے پر سیال ہوتاہے اور اُس کے ساتھ پانی کی آمیزش نہیں ہوتی۔ پانی جس کو طبی اصطلاح میں سیرم کہا جاتاہے ہمیشہ مُردہ خون سے نکلتاہے۔ بیان ہذا سے یہ ثابت ہوگیا کہ بعض حالات میں خون بدن کے اندر بھی منجمد ہوسکتا ہے نیز یہ بھی کہ سیرم ہمیشہ منجمد خون میں سے پیدا ہوتاہے۔ جن بعض حالات کی طرف مصنف مذکور نے اشارہ کیاہے۔ اُنہیں حالات کے تحت سیدنا مسیح کا خون دل کے اندر ہی منجمد ہوگیا اورچونکہ منجمد خون (جوکہ ہمیشہ مُردہ ہوتاہے) میں سے بالفعل سیرم الگ ہونے لگتاہے ۔ لہذا سیدنا مسیح کے مُردہ بدن میں دل کے اندر مُردہ خون سکڑکر الگ ہوگیا اورسیرم اُس میں سے جدا ہوگیا۔ سوجس وقت سپاہی نے سیدنا مسیح کی پسلی میں نیزہ مارا۔ اوراُس بھالے کی نوک پسلی کو چیرتی ہوئی دل میں جاکر پیوست ہوئی اورپسلی اوردل میں ایک بہت بڑا گھاؤ ہوگیا تو فوراً دل کے اندر سے منجمد مُردہ خون لوتھڑے کی صورت میں اورپانی یعنی سیرم بہہ نکلا۔ سویہ سیدنا مسیح کے مُردہ ہونے کی زبردست طبی شہادت ہوگئی ۔اگربالفرض سیدنا مسیح اُس وقت زندہ ہوتے تواُس صورت میں بھالالگنے سے محض سیال خون بلا پانی فوارہ کی طرح پھوٹ نکلنا چاہیے تھا نہ کہ جما ہواخون اورپانی یعنی سیرم نکلنا تھا۔ اگرکسی زندہ انسان کے دل میں نیز گھونپا جائے تو اول تویقیناً اُس سےاس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائیگا۔ دوم اُس میں سے خون اورپانی نہیں نکلے گا بلکہ محض سیال خون ملا پانی فوراہ کی طرح پھوٹ نکلے گا۔ گوسیدنا مسیح اُس وقت فوت ہوچکے تھے ،مگر پھر بھی بے رحم سپاہی نے بطور آخری حربہ(تاکہ زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہ سکے)۔ سیدنا مسیح کی پسلی اور دل میں نیزہ گھونپا ، مگرچونکہ آنخداوند توپیشتر ہی فوت ہوچکے تھے اورآپکا خون دل کے اندر مردہ ہونے کے باعث منجمد ہوچکا توسیرم اُس میں سے الگ ہوچکا تھا۔ سونیزہ لگنے کے باعث پیدا شدہ گھاؤ میں سے جما ہوا خون اورسیرم بہہ نکلا ۔ پس سیدنا مسیح کے مُردہ بدن سے منجمد خون اورسیرم کا نکلنا سیدنا مسیح کی موت اور واقع ہونے کا اٹل ثبوت ہے۔ سوجبکہ مرزا صاحب سیدنا مسیح کی لاش میں سے خون اورپانی کا بہنا مان چکے توساتھ ہی آپ سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے بھی گواہ بن گئے۔

· دلیل نمبر ۴: پھر آپ لکھتے ہیں " چھٹا گھنٹہ ہوا توایک ایسی آندھی آئی کہ جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھاگیا"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۱)۔

واضح ہوکہ مشرقی ممالک میں بالخصوص پاک وہند میں ایسی آندھی کا آنا جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھاجائے ۔ کسی بے گناہ کے قتل کئے جانے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پنجاب میں تویہ خیا مضبوطی پکڑے ہوئے ہے۔ جب کبھی اس قسم کی آندھی آئے جس سے زمین پر اندھیرا چھاجائے توعوام میں سمجھا جاتاہے کہ ضرور آج کہیں نہ کہیں کسی کا قتل ہواہے۔ کیونکہ ایسی آندھی کا آناظلمت اور اندھیر گردی کے وقوعہ کی خاطر قرار دیا جاتاہے ۔ اب چونکہ مرزا صاحب خود پنجابی تھے۔ اورآپ پنجابی نظریات کابھی احترام کرتے تھے تولہذا آپ عوام کے خیال کی تائید فرماتے ہوئے آندھی کا لفظ استعمال میں لائے تاکہ آندھی کو بطور سیدنا مسیح کی بے قصور موت کی علامت کے پیش کیا جائے۔ ورنہ ایسی صورت میں جبکہ مرزا کے بیان کردہ انجیلی حوالہ یعنی مرقس ۱۵باب میں آندھی کا لفظ ہی موجود نہیں توبھلا مرزا صاحب کوناحق جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت پڑی تی؟

یہ تومحض سیدنا مسیح کے قتل کےثبوت میں آپ نے ملکی نظریہ تحت آندھی کی شہادت پیش کی۔

· دلیل نمبر ۵: پھر آپ لکھتے ہیں " اگرمسیح نے خواب میں یاکشف کے ذریعہ سے کسی پر ظاہرکیا تھا توپھر ایسی پیشینگوئی گویا ایک ہنسی کی بات ہے ۔اس طرح توایک مدت اس سے پہلے حضرت مسیح پولوس پربھی ظاہر ہوچکے تھے"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۴)۔

یہاں مرزا صاحب نے یہ تسلیم کیاہےکہ پولوس رسول پر سیدنا مسیح کشفی رنگ میں ظاہر ہوئے تھے۔ پولوس رسول پر سیدنا مسیح کا ظہور کشفی رنگ میں مانا جائے تویہ اس بات کا ثبوت ہے۔ کہ جسمانی طورپر سیدنا مسیح اُس وقت زمین پر موجود نہیں تھے۔ بلکہ آسمان پر صعود فرماچکے تھے۔ کیونہ اگر سیدنا مسیح اُس وقت جسمانی حالت میں زمین پر موجود ہوتے تومرزا صاحب یہ نہ کہتے کہ وہ پولوس رسول پر کشفی رنگ میں ظاہر ہوا ۔ بلکہ آپ یہ کہتے کہ پولوس رسول پرسیدنا مسیح جسمانی صورت میں ظاہر ہوئے تھے۔ سویہ ایک پختہ ثبوت ہے کہ اس امر کا کہ مرزا صاحب یہ تسلیم کرتے تھے کہ سیدنا مسیح اُس وقت آسمان پر صعود فرماچکے تھے۔سواس طرح مرزا صاحب نے سیدنا مسیح کا صلیب پر وفات پانابھی مان لیا اورآسمان پر صعود پانا بھی تسلیم کرلیا۔

· دلیل نمبر ۶:پھر آپ لکھتے ہیں " نیز نبوت کے زمانے سے پہلے حضرت مسیح کی کوئی عظمت تسلیم نہیں کی گئی تھی تااُس کی یادگار محفوظ رکھی جاتی اورنبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین برس تھا"(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۰)۔

یہاں مرزا صاحب نے مسیح کا زمانہ نبوت ساڑے تین برس تسلیم کیا ہے۔ جب یہ مان لیا گیاکہ مسیح کا زمانہ نبوت ساڑھے تین برس ہے تومابعد مسیح کی زمینی زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کے بعدآپ کا آسمان پر صعود فرمانا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ جولوگ سیدنامسیح کی عمر ۱۲۰ برس یا ۱۲۵ برس تصور کرتے ہیں۔ اُن کے خیال کی مندرجہ بالابیان سے تردید ہوتی ہے ۔ کیونکہ زمانہ نبوت توساڑھے تین برس ہے تویہ اجر آپ کی عمر تیس برس ہوچکنے کے بعد ہوتاہے ) توکیا اُن ساڑھے تین برس کے زمانہ میں ،،،،،،، وہ ایک اُمتی کی حیثیت سے زمین پر رہے ؟ پس مرزا صاحب نے یہ کہ نبوت صرف ساڑھے تین برس تھا تویہ اقرار ہے اُس با کا کہ اُ سکے بعد مسیح کی زمین سے آسمان پر صعود فرماچکے تھے ۔ اوریہ سراسر سیدنا مسیح کے صلیب پر وفات پانے پانے اور تیسرے روز مردوں میں سے زندہ ہونے اورآسمان پر صعود فرمانے کا صریحاً اقرار ہے۔

· دلیل نمبر ۷: جیساکہ اس سے پیشتر دلیل نمبر ۳ میں بھالا لگنے سے مسیح کی پسلی سے منجمد خون اور پانی کا بہنا مذکورہوچکاہے، اور مرزاصاحب اپنی کتاب" مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۵ " پر اسے تسلیم کرچکے ہیں۔اوریہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ میخیں ٹھونکے جانے کے باعث مسیح کے ہاتھوں اورپیر میخوں سے پیدا شدہ زخموں سے خون بہنا اُس وقت قطعاً بند ہوچکا تھا کیونکہ اگراُس وقت مسیح کے ہاتھوں اورپیروں میں سے بھی خون جاری ہوتا نیز کانٹوں کا تاج سر پر رکھے جانے کے سبب سے سر سے بھی اُس وقت خون کی روانی بدستور قائم ہوتی توایسی صورت میں پسلی میں سے خون اورپانی کا ذکر کرناکونسی خاص بات ہے۔ مگرچونکہ پسلی میں سے خون اورپانی کا بہنا بالتخصیص ذکر کیا گیا ہے۔ تویہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ اُس وقت سیدنا مسیح کے بدن کے باقی زحموں سے خون بہنا کلیتہً موقوف ہوچکا تھا۔ اورسبب اس کا سیدنا مسیح کے مُردہ بن میں انجماد خون تھا۔ یہ امر یادرکھنے کے لائق ہے کہ مرزا صاحب اپنی کسی تحریر میں اس بات کا ذکر نہیں لائے کہ سیدنا مسیح کی لاش صلیب پر سے اُتارے جانے کے وقت بھی اُن کے ہاتھوں اورپیروں کے زخموں سے خون روا ں تھا۔ پس یہ ثابت ہواکہ اُس وقت سیدنا مسیح کے ہاتھوں اور پیروں کے زخموں سے خون بہنا بند ہوچکا تھا۔جوکہ سیدنا مسیح کے مردہ بدن میں انجمادِ خون کا نتیجہ تھا۔ پس سیدنا مسیح کے مُردہ بدن میں اُس وقت خون جم چکا تھا اوراس کے مرزا صاحب بھی قائل ہیں کہ مرُدہ کا خون جم جاتاہے۔ ملاخطہ ہو(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۲۵)۔

پس صلیب سے اُتارے جانے کے وقت سیدنا مسیح کے ہاتھوں اورپیروں کے زخموں سے خون کی روانی کا ذکر نہ کرنے کے سبب مرزا صاحب سیدنا مسیح کے مُردہ بن میں انجمادِ خون کے گواہ ٹھہرے ۔ بنابریں آپ مسیح کی صلیبی موت کے بھی معتقد ثابت ہوئے۔

· دلیل نمبر ۸: پھر مرزاصاحب لکھتے ہیں: پس وہ جو اخیر تک صبرکرتاہے خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتاہے۔ جیساکہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت کی ایک بے وقت موت سمجھی گئي۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ کے وقت میں ہوا۔ جبکہ حضرت موسیٰ مصر اورکنعان کی راہ میں پہلے اس سے جوبنی اسرائيل کووعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچادیں فوت ہوگئے۔ ایساہی حضرت عیسیٰ کے ساتھ معاملہ میں ہوا صلیب کے واقعہ کے وقت"(الوہیت صفحہ ۷)۔

بیان مندرجہ بالا میں موضوع زیربحث بے وقت موت ہے۔جس کی تین افراد میں مشابہت دکھائی گئی ہے۔ اول حضرت محمد ۔ دوئم حضرت موسیٰ، سوم سیدنا عیسیٰ مسیح ۔ اس عبارت میں یہ الفاظ کہ " ایسا ہی حضرت عیسیٰ کے ساتھ معاملہ ہوا" سیدنا مسیح کی صلیبی موت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کیونکہ "ا یسا ہی معاملہ ہوا" ۔ مماثلت رکھتاہے اس معاملہ کے ساتھ جیسا کہ معاملہ حضرت محمد صاحب کے ساتھ اورجیسا معاملہ حضرت موسیٰ کے ساتھ ہوا۔اب چونکہ اُن کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہ بے وقت موت کا واقعہ ہے۔۔۔۔۔۔۔

لہذا سیدنا مسیح کے ساتھ پیش آمدہ معاملہ بھی بے وقت موت کا واقعہ قرار پاتاہے۔ پس اس مقام پر بھی مرزا صاحب سیدنا مسیح کی صلیبی موت کو تسلیم کرگئے ہیں۔

لفظ غشی کا اصل مفہوم

ایک اور لفظ ہے جس نے قادیانیوں کو مغالطہ میں ڈال رکھاہے اوروہ ہے لفظ غشی جوکہ مرزا صاحب سیدنا مسیح کی صلیبی موت کے متعلق استعمال میں لائے۔یہ سمجھنا چندا مشکل نہیں کہ لفظ غشی عربی لفظ غاشیتہ سے نسبت رکھتاہے۔ اورلفظ غاشیتہ کے معنی قیامت ہیں۔ ملاحظہ ہو" کامران عربی اُردو لغت صفحہ ۷۰ ۔ ناشران اورینٹل بک سوسائٹی گنپت روڈ لاہور"۔

پس جبکہ لفظ غاشیتہ کے معنی قیامت ہیں توغشی جوکہ لفظ غاشیتہ کا ہی مخفف ہے"کہ معنی بھی قیامت ہی ہوئے۔لفظ غشی اگرچہ اُردو زبان میں بھی مستعمل ہے اورفارسی زبان میں بھی لیکن اس کا مادہ عربی ہے۔ یہ امر تو سب پرروشن ہے کہ غشی میں دوحالتیں پائی جاتی ہیں۔ اول موت کی سی کیفیت یعنی کامل سکتہ جوکہ موت سے مشاہت رکھتاہے۔دوم دوبارہ ہوش میں آکر اٹھ کھڑا ہونا جوقیامت سےمشابہت رکھتاہے۔ چونکہ ان ہردوحالتوں کا مجموعہ غشی سے موسوم کیا جاتاہے۔ توہم باآسانی اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ لفظ غشی کا ماخذ لفظ غاشیتہ ہےجس کے معنی قیامت ہیں۔ اب یہ سوال حل طلب باقی رہ جاتاہے کہ لفظ غاشیتہ کو سیدنا مسیح کی صلیبی موت سے کیا نسبت ہے۔ سوواضح ہ وکہ لفظ غاشیتہ سیدنا مسیح صلیبی موت کے عین حسب حال ہے بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ کیونکہ لفظ غاشیتہ کے معنی قیامت ہیں۔ اورسیدنا مسیح کی صلیبی موت بھی قیام کی مثال ہے۔ اسی صورت میں دوپہلو پائے جاتے ہیں ۔ اول مرنا دوم جی اٹھنا۔ اورفی الحقیقت مسیح کی صلیبی قیامت کا ثبوت ہے۔کیونکہ جس طرح آنخداوند صلیب پر مرکے تیسرے دن زندہ ہوگئے بیعنہ قیامت کے روز مردے زندہ کئے جائیں گے۔ چونکہ سیدنا مسیح کی صلیبی موت قیامت کا نمونہ ہے۔ لہذا اسی لئے قرآن شریف نے بھی سیدنا مسیح کو قیامت کی نشانی قرار دیا چنانچہ مرقوم ہے۔

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ اوروہ عیسیٰ توقیامت کی نشانی ہے ۔ سورہ زخرف آیت ۶۱۔ واضح ہو کہ سیدنا مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا کوئی اتفاقیہ امر نہیں تھا بلکہ پیشنگوئیوں کے تحت تھا۔ چنانچہ زبور میں اس کے متعلق یوں مذکور ہے۔

" تونہ میری جان کو پاتال میں رہنے دے گا نہ اپنے مقدس کو سڑنے دے گا تومجھے زندگی کی راہ دکھائیگا"(زبور ۱۶)۔ مزید براں آنخداوند نے خودبھی اپنی موت سے پیشتر یہ دعویٰ کیا ابن آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے یگا اوروہ اُسے قتل کریں گے اور وہ تیسرے دن زندہ کیا جائیگا"(متی باب ۱۷)۔ آیت ۲۲، ۲۳۔ مزید براں آنخداوند نے اپنی صلیبی موت سے پیشتر اس بات کا بھی دعویٰ کیاکہ" قیامت اور زندگی میں ہوں" (یوحنا ۱۱: ۲۵)۔ پس ازروئے انجیل مقدس وازروئے قرآن شریف سیدنا مسیح قیامت کی مثال ہے۔ یہی سبب ہے کہ سیدنا مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی ظفرمند تقریب کا نام عیدقیامت رکھا گیا ہے۔ پس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم نے جولفظ غشی مسیح کی صلیبی موت کے لئے استعمال کیا ہے اس وہ لفظ غاشیہ ہے۔ جس کے معنی قیامت ہیں۔ لہذا مرزا صاحب کے مستعملہ لفظ غاشیہ مسیح کی مثیل قیامت صلیبی موت ہے۔ اوراس کا ثبوت کہ فی الحقیقت مرزا صاحب نے غشی کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ذیل کے اقتباس سے ملتاہے" مگربعد اس ے مسیح صلیب پر چڑھ گیا اورشدت درد سے ایک ایسی سخت غشی میں آگیاکہ " گویاوہ موت ہی تھی" (کشتی نوح) مرزا صاحب کے یہ الفاظ کہ" گویا وہ موت ہی تھی" مرزا صاحب کی زبانی مسیح کی صلیبی موت کا اعلانیہ اقرار ہے ۔کیونکہ اس مقام پر مرزاصاحب نے غشی کی ازخود تشریح کردی ہے۔ یعنی یہ ثابت کردیاہے کہ غشی کا لفظ موت کے معنی ادا کرتاہے۔ پس مبرہن ہے کہ مرزا صاحب مسیح کی صلیبی موت کے قائل تھے۔




سوال: كيا يسوع هي آسمان پر جانے كا راسته هے؟

جواب:
"میں بنیادی طور پر اچھا آدمی هوں ، پس میں آسمان پر جاؤں گا"۔ "ٹھیک هے، میںنے کچھ غلط کا م کیے هیں ، پر میںنے اچھے کام زیاده کیے هیں، اس لیے میں آسمان پر جاؤں گا"۔ "میں نے کلامِ مقدس کے مطابق اپنی زندگی نهیں گزاری ، اسلئیے خداوند مجھے دوزخ میں نهیں بھیجے گا۔ زمانه بدل گیا هے "درحقیقت برے لوگ هی دوزخ میں جائیں گے جیسے بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے اور خونی"۔

یه تمام ایک جیسی سوچ رکھنے والے لوگ هیں ، لیکن سچائی یه هے، وه سب جھوٹے هیں۔ شیطان، جو جهان کا خدا، اس قسم کے خیالات همارے ذهنوں میں ڈالتا هے۔ وه،اور کوئی بھی جو اسکی پیروی کرتا هے، خدا کا دشمن هے ﴿1۔پطرس5باب8آیت﴾۔ شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشته کا همشکل بنالیتا هے ۔ ﴿2۔کرنتھیوں11باب14آیت﴾، وه ان تمام لوگوں پر هی اختیار رکھتا هے جن کا تعلق خدا سے نهیں۔ "یعنی ان بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اس جهان کے خدا نے اندھا کردیا هے تاکه مسیح جو خدا کی صورت هے اس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی ان پر نه پڑے۔ وه یسوع کے جلال کے پیغام کو سمجھ نهیں سکتے ، جو که واقعی خدا کی صورت هے " ﴿2۔کرنتھیوں4باب4آیت﴾۔

اس بات پر یقین رکھنا غلط هو گا که خدا چھوٹے گناهوں کی پرواه نهیں کرتا، اور دوزخ صرف "گنهگار لوگوں "کے لیے مخصوص هے۔ هرقسم کا گناه همیں خدا سے دور کرتا هے، "یهاں تک که چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بھی "۔ سب نے گناه کیا، اور کوئی ایک بھی ایسا نهیں جو اپنے اعمال کے سبب سے آسمانی زندگی حاصل کرسکے ﴿رومیوں3باب23آیت﴾ ۔ آسمان کی بادشاهی میں جانے کے لیے ضروری نهیں کے آپ کی اچھائیوں کا وزن زیاده هو برائیوں سے، اگر اسطرح کی صورتحال هے تو هم آسمانی زندگی سے محروم ره جائیں گے۔ "اور اگر فضل سے برگزیده هیں تو اعمال سے نهیں ورنه فضل فضل نه رها۔ اس لیے اس معاملے میں، خدا کا بیش قیمت فضل فضل نه رها جو که وه درحقیقت هے مفت اور بلااستحقاق" ﴿رومیوں11باب6آیت﴾۔ هم خود ایسا کچھ نهیں کرسکتے جس سے هم آسمان کی بادشاهی میں داخل هو سکیں﴿ططس 3باب5آیت﴾۔

آپ خدا کی بادشاهی میں صرف تنگ دروازے سے داخل هو سکتے هیں۔ دوزخ جانے کا راسته کشاده هے، اور اس کا دروازه چوڑا هے ان کے لیے جهنوں نے اس آسان راسته کو چنا "﴿متی 7باب13آیت﴾۔ اگر هر کوئی گناه میں زندگی گزار رها هے، اور خدا پر یقین رکھنے کو پسند نهیں کرتا، خدا اسے معاف نهیں کریگا۔ "جن میں تم پیشتر دنیا کی روش پر چلتے تھے اور هوا کی عملداری کے حاکم یعنی اس روح کی پیروی کرتے تھے جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیرکرتی هے"﴿افسیوں2باب2آیت﴾۔

جب خدا نے دنیا کی بنایا ، وه هر اعتبار سے مکمل تھی ۔ هر چیز اچھی تھی ۔ پھر اس نے آدم اور حوا کو بنایا اور ان کو انکی آزاد مرضی دی، پس ، وه چاهیے تو اپنی مرضی سے خدا کی پیروی اور تابعداری کرتا یا نه کرتے۔ مگر آدم اور حوا، پهلے انسان تھے جنهیں خدا نے بنایا، شیطان کے ذریعے ورغلائے گئے خدا کی نافرمانی کرنے سے ، اور انهوں نے گناه کیا۔ اس وجه سے وه خدا سے جدا هو گئے ﴿اور هر کوئی جو ان سے پیدا هوا ، جن میں هم بھی شامل هیں﴾ جبکه وه خدا سے بهت قریبی تعلق رکھتے تھے۔ وه کامل هے اور کبھی گناه نهیں کرسکتا۔ پس گنهگار هوتے هوئے هم اپنے آپ سے کچھ نهیں کرسکتے اسلئیے خدا نے ایک رسته بنایا تاکه هم آسمان پر دوباره اکٹھے هو سکیں۔ "کیونکه خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی که اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکه جو کوئی اس پر ایمان لائے هلاک نه هو بلکه همیشه کی زندگی پائے ﴿یوحنا 3باب16آیت﴾۔ "کیونکه گناه کی مزدوری موت هے ، مگر خدا کی بخشش همارے خداوند مسیح یسوع میں همیشه کی زندگی هے"﴿رومیوں6باب23آیت﴾۔ یسوع اس لیے آیا که همیں سچی راه کی تعلیم دے سکے اور وه همارے گناهوں کے لیے مُواجو هم نهیں کرسکتے۔ اپنی موت کے تیسرے دن وه قبر میں سے جی اُٹھا﴿رومیوں4باب25آیت﴾، اس نے موت پر اپنی کامیابی کو ظاهر کیا۔ وه خدا اور انسان کے درمیان ایک پُل بناپس اس سے هم کو چاهیے که اس کے ساتھ ذاتی تعلق رکھیں اگر هم اس پر یقین رکھتے هیں۔

اور همیشه کی زندگی یه هے که وه تجھ خدای واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا هے جانیں"﴿یوحنا17باب3آیت﴾۔ بهت سے لوگ خدا پریقین رکھتے هیں، اگرچه شیطان بھی خدا پر یقین رکھتا هے۔ مگر نجات حاصل کرنے کے لیے همیں خداوند کی طرف مڑنا پڑے گا، ایک ذاتی تعلق بنانا هو گا، اپنے گناهوں سے توبه کرنا هو گی اور اسکی پیروی کرنا هوگی۔ همیں یسوع پر ایمان رکھنا هے هر چیز کے ساتھ جو همارے پاس هے اس سب کچھ جو هم کرتے هیں۔ "هم خدا کی نظر میں راستباز بنائے گئے هیں، جب یسوع مسیح پر ایمان رکھتے هیں تو وه همارے گناهوں کو اُٹھا لے جاتا هے۔ اور هم سب اس طرح نجات حاصل کرسکتے هیںکوئی مسئله نهیں که هم کون هیں اور هم نے کیا کیا هے"﴿رومیوں 3باب22آیت﴾۔ کلامِ مقدس تعلیم دیتی هے که مسیح کے علاوه کوئی نجات کا دوسرا رسته نهیں۔ یسوع یوحنا 14باب6آیت میں فرماتا هے، "راه اور حق اور زندگی میں هوں۔ کوئی میرے وسیله کے بغیر باپ کے پاس نهیں آ تا"۔

یسوع هی نجات کا واحد رسته هے کیونکه وه ایک هی جس نے همارے گناهوں کفاره ادا کیا ﴿رومیوں 6باب23آیت﴾۔ کوئی اور مذهب اتنی گهرائی اور سنجیدگی سے گناه کے بارے میں اور اسکے انجام کے بارے میں تعلیم نهیں دیتا هے۔ کوئی اور مذهب بے انتها گناه کی قربانی پیش نهیں کرتا هے جو صرف یسوع نے مهیا کی۔ نه تو کسی دوسرے "مذهب کا بانی"خدا سے انسان بنا ﴿یوحنا1باب1تا14آیت﴾ ایک هی طریقے سے یه بے انتها قرض ادا هو سکتا تھا۔ یسوع خدا بھی هے اور وه یه قرض ادا بھی کرسکتے تھا۔ یسوع انسان بھی تھا اس لیے اس نے جان قربان کی۔ نجات صرف اسی صورت میں مل سکتی هے که یسوع مسیح پرایمان لایا جائے "اور کسی دوسرے کے وسیله سے نجات نهیں، کیونکه آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نهیں بخشا گیاجس کے وسیله سے هم نجات پا سکیں"﴿اعمال 4باب12آیت﴾۔

اگر ایسا ہے، تو برائے مہربانی دبائیں "آج میں نے مسیح کو قبول کرلیا"نیچے دئیے گئے بٹن کو




سوال: کیا یسوع مسیح کی قیامت سچ ہے؟

جواب:
اقتباس فیصلہ کُن گواہی پیش کر تے ہیں کہ یسوع مسیح درحقیقت مُردوں میں سے جی اُٹھا ۔ مسیح کی قیامت متی 28 : 1 ۔ 20 ، مرقس 16 : 1 ۔ 20 ، لوقا 24 : 1 ۔ 53 ، اور یوحنا 20 : 1 ۔ 21 : 25 میں قلمبند ہے۔ مسیح کی قیامت اعمال کی کتاب میں بھی آشکارہ ہوتی ہے ( اعمال 1 : 1 ۔ 11 ) اِن اقتباسات سے آپ بہت سے " ثبوت " حاصل کر سکتے ہیں ، پہلے شاگردوں میں ڈرامائی تبدیلی ہے ۔ وہ خوفزدہ آدمیوں کے گروہ میں چلے گئے اور مضبوط ، جُرات مند گواہی کی انجیل کو پوری دُنیا میں بانٹنے کو چھُپایا ۔ اور کسے مسہح کے اُن پر ظاہر کیے جانے کے علاوہ ڈرامائی انداز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟

دوسرے پولس رسول کی زندگی میں ۔ کس نے کلیسیا میں رسول کلیسیا میں ایذار سانی سے اپنے آپ کو تبدیل کیا ؟ یہ تھا جب جب مسیح نے اُس پر دمشق کی راہ پر ظاہر کیا ( اعمال 9 : 1 ۔ 6 ) ۔ تیسرا قاءل کرنے والا ثبوت خالی قبر ہے ۔ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا ، پھر اُس کا بدن کہاں ہے ؟ شاگردوں اور دوسروں نے قبر کو دیکھا جہاں وہ دفن تھا ۔ جب وہ واپس آئے، اُس کا بدن وہاں نہیں تھا فرشتوں نے بیان کیا کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا جیسے وعدہ کیا گیا تھا ( متی 28 : 5 ۔ 7 ) ۔ چوتھے ، اُس کی قیامت کی اضافی گواہی یہ ہے کہ بہت سے لوگوں پر وہ ظاہر ہوا ( متی 28 : 5 ، 9 ، 16 ۔ 17 ، مرقس 16 : 9 ، لوقا 24 : 13۔ 35 ، یوحنا 20 : 19 ، 24 ، 26۔ 29، 21 : 1 ۔ 14 ، اعمال 1 : 6 ۔ 8 ، 1 کرنتھیوں 15 : 5 ۔ 7 )۔

یسوع کے جی اُٹھنے کا ایک اور ثبوت وزن کی بڑی مقدار ہے جسے شاگردوں ے یسو ع کی قیامت پر دیا ۔ یسوع کی قیامت پر کُلیدی اقتباس 1 کرنتھیوں 15 ہے ۔ اِس باب میں ، پولس رسول وضاحت کرا ہے کہ کیوں اِسے سمجھنااور مسیح کی قیامت پر یقین کرنا مشکوک ہے ۔ قیامت مندرجہ ذیل وجوہات کے لیے اہم ہے :1) ۔ اگر مسیح مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتا ، ایماندار نہ ہو تے ( 1 کرنتھیوں 15 : 12 ۔ 15 ) ۔ 2 ( اگر مسیح مُردوں میں سے زندہ نہ ہوتے ، گناہ کے لیے اُس کی قُربانی کافی نہ ہوتی ( 1 کرنتھیوں 15 : 16 ۔ 19 ) یسوع کی قیامت نے یہ ثابت کیا کہ اُس کی موت کو ہمارے گناہ کے کفارے کے طور پر خدا کی طرف سے قبول کیا گیا تھا ، اگر وہ سادہ طرح مرتا اور مُردہ ہی رہتا ، اِس نے اشارہ کرنا تھا کہ اُس کی قُربانی کافی نہ تھی نتےجے کے طور پر م ایمانداروں کو اُن کے گناہوں سے معاف نہیں کیا جانا تھا ، او ر وہ مرنے کے بعد مُردہ ہی رہتے ۔ ( 1 کرنتھیوں 15 : 16 ۔ 19 ) ۔ یہاں ابدی زندگی کے طور پر ایسی چیز نہ ہو تی ( یوحنا 3 : 16 ) ۔ لیکن فی لحقیقت مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں اُن میں پہلا پھل ہوا ۔ " ( 1 کرنتھیوں 15 : 20 این اے ایس )۔

آخر کار ، کلام واضح ہے کہ وہ سب جو یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں وہ ابدی زندگی کے لیے جی اُٹھیں گے جیسے وہ جی اُٹھا تھا ( 1 کرنتھیوں 15 : 20 ۔ 23 ) ۔ پہلا کرنتھیوں 15 یہ بیان کرنا جاری رکھتا ہے کہ کیسے مسیح کی قیامت گناہ پر اُس کی فتح کو ثابت کر تی ہے اور ہمیں گناہ پر فتح کے طور پر زندہ رہنےکے طاقت دیتی ہے ( 1 کرنتھیوں 15 : 35 ۔ 49 )۔ یہ جی اُتھے بدن کی جلالی فطرت کو بیان کر تی ہے جسے ہم حاصل کریں گے ( 1 کرنتھیوں 15 : 35 ۔ 49 ) ۔ یہ اعلان کر تی ہے کہ ، یسوع کی قیامت کے نتیجہ کے طور پر ، وہ سب جواُس پر ایمان رکھتے ہیں وہ موت پر حتمی فتح رکھتے ہیں ( 1 کرنتھیوں 15 : 50 ۔ 58 ) ۔

مسیح کی قیامت کتنی جلالی فتح ہے !" پس اے میرے عزیز بھائیو ! ثابت قدم اور قائم رہو او ر خداوند کے کام میں ہمیشہ افزائس کر تے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بے فائدہ نہیں ہے ۔ " ( 1 کرنتھیوں 15 : 58 ) ۔ بائبل کے مطابق ، یسوع مسیح کی قیامت بہت سچ ہے ۔ بائبل مسیح کی قیامت کو قلمبند کر تی ہے ، قلمبند کر تی ہے کہ اِس کی 400 سے زائد لوگوں سے گواہی دی گئی ، اور یسوع کی قیامت کی تاریخی حقیقت پر مشکوک مسیحی تعلیم کو بنانے کا عمل کرتی ہے ۔ 




سوال: اِس کا کیا مطلب ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے؟

جواب:
جواب: یسوع انسانی باپ اور بیٹے کی سمجھ میں خدا کا بیٹا نہیں ہے ۔ خدا نے شادی نہیں کی اور بیٹے کو نہیں رکھتا تھا ۔ خداوند نے مریم کے ساتھ شادی نہیں کی اور ، اکٹھے اُس کے ساتھ ، بیٹے کو پیدا نہیں کیا ۔ یسوع اِس سمجھ میں خدا کا بیٹا ہے کہ وہ انسانی شکل میں آشکارہ کیا گیا خدا ہے ۔ یسوع خدا کا بیٹا ہے کیونکہ روح القدس کی قدرت سے کنوری مریم سے پیدا ہوا ، لوقا 1 : 35 بیان کر تی ہے کہ ، " اور فرشتہ نے جواب میں اُس سے کہا کہ روح القدس تُجھ پر نازل ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تُجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہائے گا ۔"

یہودی راہنماوں سے آزمائے جانے سے پہلے ، سردار کاہن نے یسو ع کو طلب کیا ، " میں تُجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے " ( متی 26 : 36 ) ۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا " تُو نے خود کہہ دیا بلکہ میں تُم سے سچ کہتا ہوں ک اِس کے بعد تُم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھو گے ۔ " ( متی 26 : 64 ۹ ۔ یہودی سرداروں نے یسوع کے کفر بکنے پر اپنے کپڑے پھاڑنے سے جواب دیا ( متی 26 : 65 ۔66 )۔ بعد ازاں ، پینطوس پِلاطوس کے سامنے ، " یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ ہم ایلِ شریعت ہیں اور شریعت کے موافق وہ قتل کے لائق ہے کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا بنایا ۔ " ( یوحنا 19 : 7 ) ۔ کیوں اُس کا خدا کے بیٹے کے طور پر دعویٰ کرنا کفر اور موت کی سزا کے حکم کے قابل قیاس کیا گیا ؟ یہودی سردار وں نے درست طور پر سمجھا جو یسوع کا اِس جُملے " خدا کا بیٹا" کا مطلب تھا ۔ خدا کا بیٹا وہی فطرت ہے جیسے خدا کی فطرت ہے ۔ خدا کا بیٹا " خدا " ہے ۔ خدا کی فطرت کے طور پر ہونے کا دعوی کرنا ، درحقیقت خدا بننا یہودی سرداروں کے لیے کفر تھا ، اس لیے ، اُنہوں نے یسوع کی موت کا تقاضا کیا ، احبار 24 : 15 کو جاری رکھتے ہوئے۔ عبرانیوں 1 : 3اِسے بہت واضح طور پر بیان کر تی ہے ، " وہ اُس کے جلال کا پر تو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے ۔"

ایک اور مثال کو یوحنا 17 : 12 میں پایا جا سکتا ہے جہاں یہودہ کو " ہلاکت کے فرزند" کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ یوحنا 6 : 71 ہمیں بتاتی ہے کہ یہودا شعمون کا بیٹا تھا ۔ یوحنا 17 : 12 کا یہودا کو " ہلاکت کا فرزند " کے طور پر بیان کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ لفظ ہلاکت کا مطلب ' تباہی ، بربادی ، کھنڈر ' ہے۔ یہوداہ " تباہی ، بربادی ، اور کھنڈر کا لغوی بیٹا نہیں تھا ، بلکہ اُن چیزوں کی شناخت یہوداہ کی زندگی کے ساتھ تھی ۔ یہوداہ ہلات کا ظہور تھا ۔ بالکل اِسی طرح ، یسوع خدا کا بیٹا ہے ۔ خدا کا بیٹا خدا ہے ۔ ۔ یسوع خدا کے طور پر عیاں ہے ( یوحنا 1 : 1 ، 14 ) ۔




سوال: آخری وقت کے نشانات کیا ہیں ؟

جواب:
متی 24 : 5 ۔ 8 ہمیں کچھ اہم اشارے دیتی ہے تاکہ ہم آخری وقت کی فہم تک پہنچ سکیں ، " کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آؕئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے ۔ اور تُم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سُنو ے ۔ خبردار گھبرا نہ جانا ! کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے ۔ جھوٹے مسیح میں اضافہ ، جنگ و جدل میں اضافہ ، کال میں اضافہ م بیماریوں اور قدرتی تباہ کاریوں میں اضافہ آخری وقت کے نشانات ہیں ۔ ا٘س پیرا گراف میں اگرچہ ہمیں خبردار کیا گیا ہے ۔ ہمیں دھوکہ نہیں کھانا ہو گا کیونکہ یہ صرف مصائب کا شروع ہے اور اختتام ابھی آنے والا ہے ۔ کچ مبلغین ہر بھونچال کو ، ہر سیاسی اُتار چڑھاو اور اسرائیل پر ہر حملہ کو ایک یقینی نشانکے طور پر نشاندہی کر تے ہیں کہ آخری وقت تیزی کے ساتھ آ رہا ہے ۔ جبکہ یہ واقعیا ت آخری دنوں تک کی رسائی کا اشارہ ہو سکتے ہیں ، یہ ضروری اشارے نہیں ہیں کہ آٰخری وقت آ چُکا ہے ۔ پولس رسول خبردار کرتا ہے کہ آخری دن غلط تعلیمات میں اضافے کا ایک نشان واضح کریں گے ۔ " لیکن روح صاف فرماتا ہے ک آئندہ زمانوں میں بعض لوگ گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم کی طرف متوجہ ہو کر ایمان سے بر گشتہ ہو جائیں گے ۔" ( 1 تیمتھیس 4 : 1 ) انسان ار لوگوں کی بُری خصوصیات میں اضافہ کی وجہ سے آخری دن " خطرے کے اوقات" کے طور پر بیان ہوئے ہیں جو کہ ہوشیاری کے ساتھ " سچائی کو رکھتے ہیں ۔" ( 2 تیمتھیس 3 : 1-9 ، 2 کرنتھیوں 2 : 3 بھی دیکھیں )

دوسرے ممکنہ نشانات میں یروشلم میں یہودی ہیکل کی دوبارہ تعمیر ، اسرائیل کی طرف بڑھتی ہوئی دُشمنی ، دُنیا میں ایک حکومت کی طرف پیش قدمی شامل ہوں گی ۔ تاہم آخری وقت کا سب سے نمایاں نشان قوم بنی اسرائیل ہے ۔ 1948ء میں اسرائیل ایک آزاد مملکت کے طور پر مان لیا گیا ، بنیاری طور پر 70 بعد از مسیح کے پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے ۔ خا نے ابراہام سے عہد کیا کہ اُس کی نسل کعنان کا مُلک " ایک ( دائمی ملکیت ) کے طور پر لے گی ( پیدائش 17 : 8 ) اور حزقی ایل نے اسرائیل کی جسمانی اور روحانی طور پر دوبارہ جی اُٹھنے کی پیشن گوئی کی ( حزقی ایل 37 باب ) اسرائیل کا اپنے وطن میں ایک قوم کی طرح آباد ہونا اسرائیل کی یومِ حساب میں اہمیت آخری وقت کی نبوت کی روشنی میں ٹھیک ہے ( دانی ایل 11 : 41 ، 10 : 14 ۔ مکاشفہ 11 : 8 )

اِن نشانات کو ذہن نشین کرنےکے ساتھ ہم آخری وقت کی توقعات کے بارے میں عقل اور فہم فراست حاصل کر سکتے ہیں ۔ تاہم ، ہمیں ان واقعیات میں سے کسی ایک کو جلد آنے والے آخری وقت کے واضح نشان کے طور پر وضاحت نہیں کرنی چاہیے ۔ خدا ہمیں کافی معلومات دے چُکا ہے کہ ہم تیاری کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے جسے ہم بیان کرنے والے ہیں ۔






سوال: یسوع مسیح کی آمدِ ثانی کیا ہے ؟

جواب:
یسوع مسیح کی آمدِ ثانی ایمانداروں کی اُمید ہے کہ خدا تمام چیزوں پر قادر ہے اور اپنے کلام کے وعدوں اور نبوتوں پر وفادار ہے ۔ اپنی پہلی آمد میں یسوع مسیح زمین پر بیت الحم میں ایک چرنی میں ایک بچے کے طور پر آیا ، جیسا کہ پیشن گوئی کی گئی تھی ۔ یسوع نے مسیح کی بہت ساری نبوتوں کو اپنی پئداش ، زندگی ، منادی ، موت اور دوبارہ جی اُٹھنے کے دوران پورا کیا ۔ تاہم یہاں مسیح کے بارے میں چند پیشن گوئیاں ہیں جو یسوع نے پوری نہیں کی تھیں ۔ مسیح کی آمدِ ثانی ان باقی رہ جانے والی پیشن گوئیوں کو پورا کرنے کے مسیح کی دوبارہ واپسی ہے ۔ اپنی پہلی آمد میں ٰیسوع مصیبتیں اُٹھانے والا نوکر تھا ۔ اپنی آمدِ ثانی میں یسوع ایک فاتح بادشاہ ہو گا ۔ اپنی پہلی آمدِ ثانی میں یسوع بہت ہی ساز گار حالات میں آیا تھا ۔ اپنی آمدِ ثانی میں یسو ع اپنے ساتھ آسمانی موجوں کو لے کر آے گا ۔

پُرانے عہد نامہ کے نبیوں نے اُن دو آمدات کے درمیان فرق کی واضح طور پر وضاحت نہیں کی تھی ۔ یہ یسعیاہ 9 : 6-7 ، 7 : 14 اور حزقی ایل 14 : 4 میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ پیشن گوئیوؓں کے نتیجے کے طور پر ایسا لگتا ہے کہ یہ افراد کے بارے میں ہیں ، بہت سارےت یہودی مذہبی مبلغ ایمان رکھتے ہیں کہ وہاں پر دونوں مصائب برداشت کرنے والا مسیح اور فاتح مسیح ہوں گے ۔ وہ یہ سمجھنے میں کیوں ناکام ہیں کہ صرف ایک ہی مسیح ہے اور وہ دونوں کرداروں کو پورا کرے گا ۔ ہسوع نے اپنی پہلی آمد میں مصائب خوردہ نوکر کے کردار کو پورا کیا ( یسعیاہ 53 باب )یسوع کی آپنی آمدِ ثانی میں اسرائیل کے نجات دہندے اور بادشاہ کے کردار کو پورا کرے گا ۔ زکریاہ 12 : 10 اور مکاشفہ 1 : 7 ، آمد ِ ثانی مسیح کے مجسم ہو کر آنے کو بیان کر تیں ہیں ۔ اسرائیل اور تمام دُنیا جب پہلی بار آیا تھا اُسے قبول نہ کرنے کا ماتم نہیں کریں گے ۔

یسوع کے آسمان پر چڑھ جانے کے بعد فرشتوں نے رسولوں کو اعلان کیا ، " اے گلیلی مردو ! تُم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو ؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گےا ہے اِسی طرح پھر آئے گا جس طرح تُم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے ۔ " زکریاہ 14 : 4 کوہِ زیتوں کی آمدِ ثانی کے مقام کی بابت نشاندہی کرتی ہے ۔ متی 24 : 30بیان کر تی ہے ، " اور اُس وقت ابنِ آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا ۔ اور اُس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹینگی اور ابنِ آدم کو قدرت اور جلال کے ساتھ آسمانوں کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی ۔" طیطس 2 : 13 آمدِ ثانی کو " جلالی ظہور" کے طور پر بیان کرتی ہے ۔

آمدِ ثانی سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ مکاشفہ 19 باب 11-16 آیات میں بیان کی گئی ہے ، " پھر میں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اُس پر ایک سوار ہے جو سچا اور بر حق کہلاتا ہے اور وہ راستی کے ساتھ انصا ف اور لڑائی کرتا ہے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شعلے ہیں اور اُس کے سر پر بہت سے تاج ہیں اور اُس کا ایک نام لکھا ہوا ہے جسے اُسکے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ اور وہ خون کی چھڑکی ہوئی پوشاک پہنے ہوئے ہے اور اُس کا نام کلامِ خدا کہلاتا ہے ۔ اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید اور صاف مہین کتانی کپڑے پہنے ہوئےاُس کے پیچھے پیچھے ہیں ۔ اور قوموں کے مارنے کے لیے اُس کے منہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے اور وہ لوہے کے عصا سے اُن پر حکومت کرے گا اور قادرِ مطلق خدا کے سخت غضب کی مے کے حوض میں انگور روندے گا ۔ اور اُس کی پوشاک اور ران پر یہ لکھا ہوا ہے بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوندہے "۔